دینی حلقوں میں سیلفی کا بڑھتا ہوا رجحان۔۔
ایک لمحہ فکریہ رضاء الحق مصباحی راج محلی
یہ بات درست ہے کہ بعض عبادتوں کو اعلانیہ طور پر انجام دینا اس لئے مستحب ہے کہ اس سے دوسروں کو عمل کی ترغیب حاصل ہوتی ہے اور بدگمانی سے حفاظت ہوتی ہے۔ جیسے زکات ، اعلانیہ طور پر ادا کرنا بہتر ہے۔ لیکن اس میں بھی اگر ریا کاری آنے کا خطرہ ہو تو چھپا کر دینا ہی افضل ہے۔ فرائض کی ادائیگی اعلانیہ افضل ہے اور نوافل کی چھپا کر ۔۔ ابھی جاندار کی تصویروں اور ویڈیو گرافی کی حلت وحرمت کے تعلق سے علما وفقہا ء شریعت ضرورت ، حاجت مصلحت وغیرہ کی تنقیح و تعیین میں فقہی مباحثے اور مذاکرے کر رہے تھے کہ دیکھتے دیکھتے شوسل میڈیا سیلاب بلا بن کرعالما وفقہا کے بھی سروں پر آن پڑا اور ضرورت ، حاجت مصلحت کی ساری بحثوں کو خس خاشاک کی طرح بہالے گیا۔ اب کیا عالم، کیا مفتی، کیا پیر ہر ایک طبقہ فیس بک ، واٹس ایپ انسٹا گرام، ٹویٹر وغیرہ میں صرف رونمائی ہی نہیں کرتا بلکہ بہ ہزار زیبائش و آرائش جلوہ نمائی بھی ہورہی ہے۔ کچھ حضرات تو اپنے شاگردوں اور مریدوں سے کچھ مخصوص افراد کو سفر و حضر میں اسی ایک مقصد کے لئے ساتھ رکھتے ہیں کہ اُن کے مخصوص ایکشن کو مومنیٹ کو ، کھانے اور ناشتے کی مجلسوں کو اور معتقدین و مریدین کے عمل دست بوسی و قدم بوسی کے مناظر کو فوراً کیمرے میں قید کر لیں پھر
اسلام نے ریا کاری اور دکھاوے کو حرام قرار دیا ہے، حتی کہ ریا کاری کو شرک اصغر کہا گیا ہے۔ جس طرح شرک سے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں اسی طرح ریا اور دکھاوا بھی نیکیوں کو برباد کر ڈالتا ہے۔ سب سے اہم عبادت نماز بھی دکھاوے کے لئے پڑھی جائے تو نمازی ثواب کے بجائے سخت عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے، یہی قرآن حکیم کا اعلان ہے۔
شوسل میڈیا میں وائرل کر کے اپنے حضرت کو شہرت کے اوج ثریا پہ بٹھانے کی کوشش کریں۔ اس خدمت کے عوض ان پر خاص کرم نوازیاں اور نوازشیں بھی ہوتی ہیں۔
دینی پروگراموں ، وعظ ونصیحت کی مجلسوں یا کسی دینی یاد نیاوی ضرورت و مصلحت پر مبنی ویڈیو یا فوٹوگرافی کی بات تو کسی قدر گوارا کی جاسکتی ہے، لیکن خالص عبادتوں بلکہ خلوت میں یا مخصوص مجلسوں میں کی جانے والی بعض عبادتوں کی مخصوص مجلسوں کا ویڈیو یا تصویر بنانا پھر اسے شوسل میڈیا میں عام کرنا شرعی اعتبار سے سخت نا پسندیدہ فعل ہے جو ان عبادتوں کو برباد کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایک حضرت صاحب نے فرض نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا نہیں کی تنہا کسی کے مکان یا اپنے حجرہء خاص میں پڑھی ۔ بغیر عذر کے ایسا کر کے یقینا حضرت صاحب نے برا کیا لیکن چیلے نے حضرت کی حالت نماز کی تصویر کھینچ لی اور شوسل میڈیا میں عام کیا ، یہ برے پر بڑا کیا۔ پھر چیلے کے اس عمل سے حضرت صاحب بھی خوش ہوئے تو کریلے یہ نیم چڑھا۔۔۔
دعا میں گڑ گڑانا ، رونا اور رونا نہ آنے پر رونے کی صورت بنانا ، بندے کا یہ عمل اللہ کو بہت پسند ہے۔ مجلس ذکر قائم کرنا ، اس میں حق ھو کی صدائیں بلند کرنا اچھا عمل ہے لیکن اس قسم کے نیک عمل کا ویڈیو بنا کر عام کرنا نہ شریعت کو مطلوب ہے نہ نگاہ طریقت میں محمود ہے۔ ایسے مخصوص پروگرام کو شوسل میڈیا میں عام کئے جانے سے کبھی کبھی دوسروں کے لئے جنسی کا سامان بھی مہیا ہو جاتا ہے۔۔۔ بارگاہ رب العزت میں اپنی معصیت پر تو بہ واستغفار کے لئے بہائے گئے آنسووں کو جگ ظاہر کرنا اور مجلس دعا کی روتی ہوئی
شکلوں کو مشتہر کرنا اور اس طرح کے کسی بھی عمل کو طلب رضائے مولیٰ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ عجیب و با پھیلی ہوئی ہے: دعا میں سیلفی ، نماز میں سیلفی ہمجالس حق ھو، اللہ ھو کا لائیو ٹیلی کاسٹ اللہ کے گھر کا طواف ہو تو سیلفی ، رمی جمرہ ہو تو فوٹو ویڈیوگرافی ، وقوف عرفہ میں کی عبادتوں کا اشتہار، کسی بیمار کی عیادت کے لئے جانا ہوا تو اس کی ویڈیو گرافی، غریب نادار کی امداد کی تو اس کا ویڈیو، یقینا ہمارا طرز عمل
یہ بتا رہا ہے کہ ہم میں اخلاص کم اور جذبہ خود نمائی و شہرت طلبی زیادہ پروان چڑھ رہا ہے۔ جو نیک عمل تنہائی میں کرنا تھا اُس کی نمائش کر کے ہم نہ صرف اُس کے ثواب سے محروم ہور ہے ہیں ، بلکہ ہم عذاب آخرت کے بھی مستحق بن رہے ہیں۔ صد افسوس ! اب ہماری عبادتیں بھی رہی ہوتی جارہی ہیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے!دعا ایک خالص عبادت ہے۔ دعا کی حالت میں بندہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے۔ دعا اللہ اور بندے کے درمیان کا ایک عظیم کنکشن ہے لیکن اسے تماشہ بنانا، اس کی ویڈیو گرافی کر کے عام کرنا، پھر اُس دعا کی تعریف کرنا کہ فلاں صاحب نے بڑی اچھی دعا کی اور تعریف پہ خوش ہونا کیا خالص عبادت کو اپنی خواہش نفس کی تسکین کا سامان بنانا نہیں ہے؟ 10 محرم 5 ہجری میں ایک غزوہ ہوا تھا ، جس کا نام ہے ذات الرقاع۔ جب دشمنوں نے مدینہ منورہ پر پوری تیاری کے ساتھ حملہ کرنا چاہا تو حملے کو ناکام بنانے کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ سخت گرمی کا موسم ، پتھریلی زمین اور سفر بہت کٹھن تھا۔ اُن دنوں مسلمان محتاجی اور تنگ دستی کے شکار تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سفر میں ہم میں سے 6 آدمیوں کو صرف ایک سواری کا جانور ملا تھا۔ اُس پہ باری باری ہم سوار ہوتے تھے اور راستہ طے کر ہے تھے ۔ پیدل چلنے کی وجہ سے ہمارے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ انگلیاں پھٹ گئی تھیں ۔ ہم نے اپنے پیروں پہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اچانک یہ خیال آیا کہ کہیں ہم اپنے اس نیک عمل کی تشہیر کے مرتکب تو نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوچ کر انہوں نے کہا: میں اس واقعہ کو اب بیان نہیں کرتا۔۔ ( صحیح بخاری باب غزوة ذات الرقاع )
ذرا سا غور فرمائیں ! صحابہ کرام کا طرز نگر کیا تھا؟ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مقصد اپنے عمل کا اظہار نہیں تھا۔ وہ حدیث رسول کو بیان کرنے کی ذمہ داری پوری فرما ر ہے تھے ۔ اگر بیان نہ کرتے تو
کتمان علم کا گناہ سر پہ آتا۔ لیکن قربان جائیے آپ کے جذبہ اخلاص پر کہ ریا اور خود پسندی کا اندیشہ پیدا ہوا تو فرمایا کہ اس واقعہ کو میں دوبارہ نہیں بیان کروں گا۔ افسوس !ہمارے نیک اعمال بھی غیروں کے کر یا کرم کی طرح محض رسمی بنتے جارہے ہیں۔ نیک اعمال کو ہم دنیا وی شہرت اور جاہ و حشمت کے حصول کا ذریعہ بنانے میں لگے ہیں۔ شاید اسی لئے ہمارے رب کی رحمتیں ہم سے قریب نہیں ہو رہی ہیں اور عزت کے بجائے ذلت ہی ہمارے ہاتھ آرہی ہے۔۔ اللہ ہم سب کے دلوں میں جذبہ اخلاص عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
مجلس ثقافت۔
0 تبصرے