آسمان علم و فضل کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا۔
سیدی،سندی،استاذی الکریم واستاذ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد فیض الرحمن صاحب قبلہ اشرفی علیہ الرحمہ کے وصال پر ملال کی خبر سن کرشدید قلبی صدمہ ہوا ،آنکھیں اشکبار ہو گءیں،درسگاہ میں فورا اپنے طلبہ کے ساتھ مل کر حضرت کی روح کو ایصال ثواب کیا کہ حضرت ہمارے پہلے مربی تھے ،اپنےفرزند کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند کی طرح ایک طویل عرصہ تک مجھ ناچیز کی علمی و خلقی تربیت فرمایی آج جو کچھ میرے پاس علمی اثاثہ ہے حضرت کے تعلیمی فیض کا نتیجہ اور ان کی شب و روز کی کوششوں کا ثمرہ ہے
حضرت علامہ مفتی فیض الرحمن صاحب قبلہ اشرفی علیہ الرحمہ بہار کے اکابر علمائے کرام میں ایک بلند پایہ عالم دین تھے ،حضور مخدوم المشائخ سرکار کلاں سجادہ نشین آستانہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ سے بیعت و خلافت حاصل تھی ،خلیفہ اعلیٰ حضرت ،ملک العلماء حضرت علامہ مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کے اجلہ تلامذہ میں غالباً آخری نشانی تھے ،امام معقولات ومنقولات حضرت علامہ مولانا سلیمان صاحب بھاگلپور ی علیہ الرحمہ سے بھی شرف تلمذ حاصل تھا ایک زمانے تک آپ کی صحبت بابرکت میں رہ کر علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل کیا اور پھر آپ ہی کی ایماء پر آپ کے گاؤں ماچھی پور بھا گلپور کے مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم میں تدریسی خدمات کے لئے تشریف لائے اور ریٹائرمنٹ تک بڑی محنت وجانفشانی اور کمال دیانتداری کے ساتھ تشنگان علوم دینیہ کو فیض یاب فرماتے رہے ،درمیان میں دو بار ملک کی عظیم دینی و روحانی درس گاہ جامع اشرف درگاہ کچھوچھہ شریف میں بحکمِ شیخ اعظم و بحکم قائد ملت سجادہ نشین آستانہ عالیہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف تشریف لائے اور مہینوں منتہی طلبہ کو بخاری ومسلم اور ملاحسن ومسلم الثبوت جیسی متداول اور مغلق کتابوں کا درس دیا ،تعلیم وتفہیم کا انداز بڑا ہی پیارا ،نرالا اور جداگانہ تھا چنانچہ نحومیر اور انشاء اس انداز سے پڑھاتے کہ طلبہ کو نحومیر ختم کر تے ہی عربی عبارت خوانی آجاتی ۔ہزاروں آپ کے پڑھاے
ہوئے حضرات اہل علم ،مدارس وخانقاہوں میں جہاں مدرس و پیر طریقت ہیں وہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلی مناصب پر فائز ہیں ۔بہت سارے قیمتی و تحقیقی فتاوے ادبی مضامین اور تقاریظ وتاثرات رقم فرما ے،راقم الحروف کی کتاب اشرف النعوت شرح مسلم الثبوت پر حضرت نے جو شاندار تقریظ جمیل تحریر فرمایا ہے صرف اسی سے آپ کے علمی مقام ومرتبہ ،اعلی صلاحیت ،اخاذ طبیعت ،قوت حافظہ اور استحضار تام کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ خواجہ علم و فن حضرت علامہ مولانا خواجہ مظفر حسین صاحب رضوی پورنوی علیہ الرحمہ جیسے یکتائے روزگار آپ کی پختہ صلاحیت ،علمی مقام اور روشن ذہانت کا بر ملا اعتراف فرماتے تھے چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ ہمارے تمام رفقائے درس میں جو سب سے زیادہ با صلاحیت ،ذی علم اور ذہین تھے وہ مولانا محمد فیض الرحمن صاحب دربھنگوی تھے ان کے استحضار تام اور قوت حافظہ کا عالم یہ تھا کہ درسگاہوں میں چھہ ماہ پیشتر پڑھے ہوئے سبق کا من و عن اعادہ کر دیا کرتے تھے مگر بہار کے ایڈیڈ مدرسہ میں ہونے کی وجہ سے مشہور نہ ہو سکے ۔غرضیکہ حضرت علامہ مولانا مفتی فیض الرحمن صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ایک نہایت ہی متقی پرہیزگار دیانتدار جید عالم دین تھے ،حضرت کے وصال سے علمی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جس کا پر ہونا مشکل ہے' ایسے ہی عالم دین کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے،موت العالم موت العالم ،اور
یقبض العلم بقبض العلماء ،
مگر قضا پر رضا ہی ایمان ہے پس میں آپ کے فرزند ارجمند ،رفیق درس ،محب گرامی جناب ڈاکٹر حبیب الرحمن صاحب ،ان کے برادر مکرم ،محترم حافظ محمد مجیب الرحمٰن صاحب اور جملہ اہل خانہ کو صمیم قلب اور دل کی گہرائیوں سے کلمات تعزیت پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ مولائے کریم آپ سب کو صبر و شکر کی توفیق ارزانی فرمائے اور حضرت مولانا صاحب علیہ الرحمہ کو جوار قدس میں اعلی مقام عطا فرمائے ،ابررحمت ان کےمرقد پر گہر باری کرے ،آمین ،
دعاجو محمد معین الدین اشرفی مصباحی
0 تبصرے