Header New Widget

قناعت اللہ پاک کا بہت بڑا انعام ہے ۔

 قناعت اللہ پاک کا بہت بڑا انعام ہے ۔


از قلم مولانا محمد سہیل رضا رانی گنج بنگال ۔

قناعت یہ ربِ کریم عزوجل کی بہت بڑی نعمت  ہے

 جس نےقناعت کو پسند کیا اور محبوب جانا گویا کہ وہ رب کریم کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی ہے، اور جس نے قناعت کو پسند نہیں کیا اور قناعت اختیار نہیں کیا  تو سمجھو وہ ربِ کریم کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی نہیں ہے، اس کو یوں سمجھیں جس نے قناعت اختیار کی وہ بندہ رب کے فیصلے پر رضامند ہے اور جس نے قناعت اختیار نہیں کی وہ رب کے فیصلے پر رضامند نہیں ہے، اب غور و فکر کرنے کا مقام یہ ہے کہ مؤمن کی پہچان یہ نہیں کہ رب کے فیصلے پر رضامند نا ہو بلکہ کہ مؤمن کی پہچان تو یہ ہے کہ رب عزوجل کے ہر فیصلے پر رضامند ہو۔

ایک بزرگ کا واقعہ

آئیے میں آپ کو ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ کے واقعے کے ذریعے  بتاتا ہوں کہ قناعت اختیار نہ کرنے اور مال و زر کی حرص میں مبتلا ہونے سے دنیاوی اعتبار سے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

 تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ دمشق کے ایک بزرگ رحمۃاللہ علیہ کا ایک روز بازار جانا ہوا تو آپ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جس کی ایک آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ پوچھنے لگے  تو اس شخص نے کہا میں ایک اونٹ والا ہوں میرے پاس دو لوگ آئے تھے اور انہوں نے کہا مجھے فلاں جگہ جانا ہے تو میں نے کہا اس جگہ جانے کے لیے جو راستہ ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے لیکن ان لوگوں کے اصرار کرنے کی وجہ سے میں جانے کے لیے تیار ہو گیا اور میں نے کہا اس جگہ جانے کے لیے دو راستے ہیں ایک دریا کے کنارے سے جو کہ دوسرے راستے کے مقابلے میں کچھ صحیح ہے لیکن ایک اور راستہ جو جنگل کی طرف سے جاتا ہے جو کہ بہت ہی پر خطر ہے وہاں بہت سارے جنگلی جانور رہتے ہیں ان دونوں نے مجھے جنگل کے راستے سے جانے پر بہت اصرار کیا اور جب اس راستے سے جانے لگے تو اچانک ایک سانپ دیکھا تو جو مسافر تھے وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جس چیز کی ہمیں کافی عرصے سے تلاش تھی وہ آخر کار مل ہی گئی اور انہوں نے سانپ کو پکڑ لیا پھر وہ دونوں اپنے میں مگن ہوگئے اونٹ والا سارا ماجرہ دیکھ رہا تھا پھر اس نے دیکھا کہ وہ دونوں شخص سرمہ کی سلائی نکالی اور انہوں نے سانپ کی آنکھ میں پھیرا پھر انہوں نے اپنی اپنی آنکھوں میں اس سلائی کو پھیرا اونٹ والا سارا ماجرہ دیکھنے کے بعد اس نے یہ سمجھا کہ اس میں ضرور کچھ حکمت ہوگی پھر اونٹ والے نے ان دونوں سے کہا کہ میری آنکھ میں بھی سلائی کو پھیر دو تو انہوں نے انکار کیا لیکن اونٹ والا کے بہت اصرار کرنے کے بعد ان دونوں نے اونٹ والے کی آنکھ میں سرمہ کی سلائی کو پھیر دیا سلائی پھیرنے کے بعد اسے زمین کے نیچے کا خزانہ نظر آنے لگا اور اس نے کہا ارے یہاں زمین کے نیچے بہت سارا سونا نظر آ رہا ہے ہے اور کہنے لگا چلو زمین کھود کر سونا نکال لیتے ہیں اُس کی اِس حرص کی وجہ سے ان دونوں نے ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالا جا میں سلائی پھیرا تھا پھر دیکھنا کیا تھا اس کی آنکھ کی بینائی چلی گئی  آہ افسوس  آپ نے دیکھا کہ قناعت اختیار نہ کرکے حرص میں پڑنے کی وجہ سے اس کی آنکھ جیسی عظیم نعمت چھین لی گئی میرے عزیزو ہمارے حق میں جو بہتر ہوتا ہے  ربِ کریم ہمیں وہی عطا فرماتا ہے اس لئے ہر حالت میں رب عزوجل کا شکر بجا لانا چاہیئے اور رب کریم کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرنا چاہیے ۔

اس بات کی تائید حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے بخاری شریف کی حدیث ہے امامِ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن بن سلیمان بن  غسیل نے بیان کیا ان سے عباس بن سہل بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہما کو ممبر پر یہ کہتے سنا انہوں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اے لوگو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر انسان کو ایک وادی سونا بھر کے دے دیا جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا اگر دوسری دے دی جائے تو تیسری کی خواہش کرے گا اور انسان کا پیٹ مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ پاک اس کی توبہ قبول کرتا ہے جو توبہ کرے۔(بخاری شریف کتاب الرقاق، باب ما یتقی من فتنۃ المال الحديث ٦٤٣٨)


ازقلم.. حضرت حافظ و قاری محمدسہیل رضا صاحب قبلہ 

   رانی گنج ضلع پچھم بردوان مغربی بنگال

المشتہر مجلس ثقافت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے