عالم اسلام کو عرس سرکار کلاں مخدوم المشائخ سید شاہ مختار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ خوب خوب مبارک ہو
مختصر تعارف حضور سرکار کلاں سید مختار اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کچھوچھہ شریف
سر زمین ہندوستان میں جہاں عرصہ دراز سے خانوادہ اشرفیہ خدمت دین کرتے آرہے ہیں۔ وہیں پر لوگوں کو اخلاق و کردار کی نورہدایت سے روشناس کرانے۔ ظلم وستم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کرنے والے بزرگان دین میں حضرت مخدوم المشائخ سید شاہ محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔ آپ کی ولادت 1233 ہجری مطابق 1914ء مقام کچھوچھہ شریف میں ہوئی۔ جب آپ کی ولادت ہوئی تو خاندانی دستور کے مطابق ولادت کے چھٹے دن آپ کے جد امجد محبوب ربانی سید شاہ علی حسین اعلی حضرت اشرفی میاں نے آپ کے ہاتھ میں قلم دیا اور اپنا عمامہ آپ کے سر پر رکھ کر فرمایا میرا پوتا ولی ہوگا۔کیونکہ آپ کے والد ماجد عالم ربانی مولانا سید احمد اشرف علیہ الرحمہ کی تین صاحبزادیوں کے بعد ایک صاحبزادے کی ولادت ہوئی تھی،لیکن وہ انتقال کر گئے تھے پھر 23 سال کے بعد حضرت مخدوم المشائخ علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی۔اس لیے گھر میں آپ کی ولادت کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
آپ کا اسم گرامی سید محمد مختار اشرف ابن عالم ربانی مولانا سید احمد اشرف بن محبوب ربانی سید شاہ علی حسین اشرفی میاں ہیں۔ والد ماجد سلطان المناظرین سید المتکلمین عارف حقانی عالم ربانی سید احمد اشرف کچھوچھوی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ وقت کے جید عالم دین بے مثال خطیب اور عظیم مناظر تھے۔ بارگاہ رسالت میں آپ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت آپ استاذ العلماء مفتی لطف اللہ علی گڑھی کی خدمت میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ تو ایک روز خواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست اقدس سے آپ کے سر پر دستار باندھی۔ لہذا آپ نے بعد میں حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی کے حکم کے مطابق کسی کے ہاتھوں سے دستاربندی نہیں کروائی۔ آپ کے علمی جاہ و جلال کا یہ عالم تھا کہ بد مذہبوں کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ آپ کی علمی و جاہت اور قوت استدلال اور تبحر کا اندازہ کرنا ہو تو مناظرہ کچھوچھہ کی روداد ، اثبات الفاتحہ اور خیر الکلام فی اثبات القیام کا مطالعہ کریں۔ آپ کی عالمانہ و عارفانہ خطاب سننے کا فاضل بریلوی جیسے متبحر عالم دین کو اشتیاق ہونا اور ہر سال فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی دعوت پر بریلوی شریف مدعو ہوا کرتے تھے۔
حضرت مخدوم المشائخ سرکار کلاں علیہ الرحمہ کی ابتدائی تعلیم جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں ہوئی آپ نے خود بیان فرمایا ہے کہ" گھر پر حضرت مولانا عمام الدین صاحب سنبھل سے میزان سے شرحِ وقایہ تک پڑھا۔ اور مفتی عبدالرشید خان فتح پوری اشرفی سے فنون کا درس لیا اس کے بعد جامعہ نعیمیہ میں حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین اشرفی مرادآبادی سے دورہ حدیث کیا"۔
1354ء میں علوم اسلامیہ کی تحصیل سے فارغ ہوئے اور تیرہ سو پچپن (1355)سے آپ جامعہ اشرفیہ کچھو چھہ شریف میں علمی خدمات انجام دینے میں مصروف ہوگئے۔ جامعہ اشرفیہ میں آپ فتویٰ نویسی کا کام انجام دینے لگے۔خانقاہی ذمہ داریوں کی وجہ سے اس کام میں تسلسل تو نہ رہ سکا لیکن آپ کی فتوی نویسی کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح 1372 عیسوی تک جاری رہا۔ آپ کے بعض فتاویٰ میں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اور حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمھما کی تصدیقات بھی شامل ہیں۔ آپ کے فتاوے کے مطالعے سے آپ کے وسعت مطالعہ اور فقہ حنفی کی کتابوں پر دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔
1355ء میں آپ کے جد امجد محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں نے آپ کو اپنا ولی عہد و جانشین بنایا اور مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی امانتوں کے امین کی حیثیت سے منصب سجادگی پر فائز فرمایا۔ اور آپ کی جانشینی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا" فقیر نے اپنے فرزند کے فرزند اپنے پوتے سید محمد مختار اشرف عرف محمد میاں سلمہ کو اپنا مرید کر کے اپنا ولی عہد بنایا"۔ آپ کے جد امجد محبوب ربانی اعلی حضرت اشرفی میاں نے آپ کے لئے دعا فرمائی تھی "اللہ تعالی میرے فرزند وجانشین کو عارف کامل ولیعہد صاحب دل فرمائے"۔ اعلی حضرت اشرفی میاں کی دعا قبول ہوئی اور آپ وقت کے عارف کامل اور پیر روشن ضمیر ہوئے اور آپ کے فیضان سے ایک جہاں سیراب ہوا۔ آپ کے روحانی فیوض و برکات اور روشن ضمیری کے واقعات جو معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ "سرکار کلاں بحثیت مرشد کامل" کا مطالعہ کریں۔
آپ کے خلفاء میں وقت کے بڑے بڑے علماء و فضلاء اور مشائخ ملت ہیں۔
9 رجب المرجب 1417ھ مطابق11 نومبر 1996 بروز جمعرات 11 بجے دن لکھنؤ میں آپ کی وفات ہوئی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وفات سے ایک ہفتہ قبل اپنی خانقاہ میں چلہ کش ہوئے اور درمیان چلہ ارشاد فرمایا کہ "مخدوم صاحب اپنی حیات میں ہی قبر شریف کھودوائی تھی۔اور اس کے اندر جاکر رسالہ قبریہ اور بشارۃ المریدین تحریر فرمایا تھا۔ میں اپنی قبر کی زمین کے اوپر بیٹھ کر تلاوت کر رہا ہوں"- پھر اشاروں میں یہ بات بھی فرما دیا کہ" اگر دور حاضر کا خیال نہ ہوتا تو میں بھی وہی کرتا۔ لیکن آج تو لوگ اس کا مذاق بنا لیں گے"- نماز جنازہ آپ کے فرزند اکبرحضور شیخ اعظم سید شاہ اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ نے پڑھائی۔اپنی والدہ ماجدہ کی قبر کے پاس دفن ہوئے اللہ سبحانہ و تعالی آپ کی قبر پر رحمتوں کی بارش برسائے آمین۔
0 تبصرے