Header New Widget

قاضی اورقاضی القضاۃ۔۔اصول قضاکی روشنی میں

 قاضی اورقاضی القضاۃ۔۔اصول قضاکی روشنی میں



رضاءالحق راج محلی مصباحی ۔خادم دارالافتاء والقضاء راج محل جھارکھنڈ

قاضی اور قاضی القضاۃدونوں ایک نہیں اور نہ دونوں کی ولایت ایک جیسی ہے۔قاضی کسی خاص شہراور اس کے مضافات کے قاضی کوکہتےہیں،اور قاضی القضاۃ پورے ملک کا قاضی ہوتاہے،اسی لئے اسے قاضیِ شرق وغرب بھی کہاجاتاہے،جیساکہ ردالمحتار باب الجمعۃ میں ہے:قَاضِيَ الْقُضَاةِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ قَاضِي الشَّرْقِ والغرب۔(ردالمحتار باب الجمعۃ)

البتہ قاضی بول کر کبھی قاضی القضاۃ بھی مراد لیاجاتاہے،جیساکہ المحیط البرھانی میں ہے،نیز ردالمحتار میں ہے:الْمُرَادُ قَاضِي الْقُضَاةِ فِي كُلِّ مَوْضِعٍ ذَكَرُوا الْقَاضِيَ فِي أُمُورِ الْأَوْقَافِ۔ترجمہ:امورِ اوقاف میں جہاں بھی فقہانے قاضی کالفظ ذکرفرمایاہے اس سے مراد قاضی القضاۃ ہے۔

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے میں قاضی القضاۃ تھے اور آپ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے قاضی القضاۃ مقرر ہوئےتھے۔اعلیٰ حضرت امام اہل سنت سیدنا امام احمدرضاخاں قدس سرہ نے محرر مذہبِ حنفی قاضی الشرق والغرب امام ابویوسف قدس سرہ  اور ان کی تصنیف’’ کتاب الخراج‘‘ کاتعارف کراتے ہوئے یہ تحریر فرمایاہے:امام ابویوسف نے یہ کتاب مستطاب خلیفہ ہارون کے لیے تصنیف فرمائی ہے جب کہ امام خلافت ہارونی میں قاضی القضاۃ و قاضی الشرق والغرب تھے، اُس میں کمالِ اعلانِ حق کے ساتھ خلیفہ کو وُہ ہدایات فرمائی ہیں جو ایک اعلیٰ درجے کے امام ربّانی کے شایان ِشان تھیں۔(فتاوی رضویہ ج۸ص ۴۷۵) 

قاضی القضاۃ کوسلطان اسلام یاخلیفۃ المسلمین کی طرف سے تمام شہروں میں قاضی کے تقرر اور معزولی کا اختیار ہوتا ہے،جب کہ قاضی کویہ اختیار نہیں ہوتا۔

العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:فَإِذَا قَالَ الْخَلِيفَةُ لِرَجُلٍ جَعَلْتُك قَاضِيَ الْقُضَاةِ كَانَ إذْنًا بِالِاسْتِخْلَافِ وَالْعَزْلِ دَلَالَةً؛ لِأَنَّ قَاضِيَ الْقُضَاةِ هُوَ الَّذِي يَتَصَرَّفُ فِي الْقُضَاةِ تَقْلِيدًا وَعَزْلًا، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔

ترجمہ:جب خلیفہ (یاسلطان اسلام ) نےکسی سے کہاکہ میں نے تم کو قاضی القضاۃ بنایاتواسے اپنانائب(قاضی) مقرر کرنے اور معزول کرنے کی دلالۃً اجازت ہوگی،کیوں کہ جوقاضی القضاۃ ہوتاہے اسے قاضیوں کے تقرر اور معزولی کااختیار ہوتاہے۔ایساہی ذخیرہ میں ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ جسے سلطان اسلام نے اپنانائب قاضی مقرر کرنے یامقررکردہ کومعزول کرنے کی اجازت نہ دی ہویعنی اسے یہ نہ بولاہوکہ میں نے تم کوقاضی القضاۃ بنایا،نہ یہ بولاہوکہ تم جسے چاہوقاضی بناؤ اور جسے چاہومعزول کرو تونہ وہ کسی شہر میں اپنانائب(قاضی) مقرر کرسکتاہے اور نہ ہی کسی قاضی کومعزول کرسکتاہے۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ایک مقام پر امام قسطلانی قدس سرہ کی عبارت پر کلام کرتے ہوئے تحریر فرمایاہے:اقول وعندی ان الامر بالعکس فان اقضی القضاۃ من لہ مزیۃ فی القضاء علی سائر القضاۃ ولایلزم ان یکون حاکما علیہم ومتصرفا فیہم بخلاف قاضی القضاۃ کما نقلناعن الدرالمختار ونظیرہ املک الملوک یصدق اذا کان اکثر ملکا عنہم بخلاف ملک الملوک فہو الذی نسبۃ الملوک الیہ کنسبۃ الرعایا الی الملوک کما لایخفی فہذا ھو الابلغ۔

ترجمہ:میں کہتاہوں،میرے نزدیک معاملہ برعکس ہے(لفظ قاضی القضاۃ اقضی القضاۃ سے ابلغ ہے)کیوں کہ اقضی القضاۃ وہ قاضی ہے جس کے فیصلے تمام قاضیوں سے زیادہ ہیں،اس سے یہ لازم نہیں آتاہےکہ وہ تمام قاضیوں کاحاکم اور ان کے بارے میں تصرف کااختیار رکھنے والاہو،لیکن اس کے برخلاف قاضی القضاۃ ہے(وہ تمام قاضیوں کاحاکم اور ان کے معاملے میں تصرف کرنے والاہوتاہے)جیساکہ ہم نے درمختار سے نقل کیاہے۔اس کی نظیر لفظ ’’املک الملوک اور ملک الملوک‘‘ہے۔املک الملوک وہ ہے جس کا مملوک زیادہ ہے،اس کے برخلاف ملک الملوک وہ جس کاتصرف بادشاہوں پر ہوکہ تمام بادشاہ اس کے لئے رعایاکی منزل میں ہوجیساکہ پوشیدہ نہیں۔معلوم ہواکہ اقضی القضاۃ سے قاضی القضاۃ ابلغ ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۱ص۶۱)

کسی ملک میں اگر قاضی القضاۃ موجود ہوتواس کی یا اس کے نائب کی اجازت کے بغیر کسی شہر میںجمعہ وعیدین کاقیام نہیں ہوسکتا،کیوں کہ اقامتِ جمعہ کا حق سلطان اسلام یااس کےنائب کوہےلیکن تمام شہروں میںخود جاکر اس ذمہ داری کو پوراکرنے میں سلطان کو دشواری لاحق ہوگی لہذااسے شرعااجازت  دی گئی ہے کہ یاتووہ کسی کوقاضی القضاۃ بنادےجوہر شہر میں اپنانائب مقررکرے  یاخود سلطان ہرشہر میں اپنانائب (قاضی )مقررکردےتاکہ ہر شہر میں جمعہ قائم کرنا آسان ہو۔

سلطان اسلام کے نائب متعدد ہوسکتے ہیں،اقامت ِجمعہ وعیدین کے حوالے سےجن کی ترتیب محیط برہانی میں یوں ذکر کی گئی ہے: والحاصل: أن حق التقدم في إقامة الجمعة حق الخليفة إلا أنه لا يقدر على إقامة هذا الحق بنفسه، في كل الأمصار، فيقيمها غيره بنيابته والسابق في هذه النيابة في كل بلدة الأمير الذي ولي على تلك البلدة ثم الشرطي ثم القاضي ويريد به قاضي القضاة، ثم الذي ولاه قاضي القضاة۔(المحیط البرھانی  ج۲ص۷۰)۔

اِس عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ قاضی القضاۃ کی موجودگی میں اس کی یااس کے نائب کی اجازت کے بغیر کسی شہر میں جمعہ وعیدین کاقیام نہیں ہوسکتا۔

جب سلطان اسلام قاضی کے دائرہ قضاکوکسی خاص شہر سے محدود کردے یادائرۂ قضاکاذکر نہ کرےتو اس کادائرہ ٔقضا اسی شہر اوراس کے مضافات تک محدود ہوگاجس میں وہ قاضی سکونت پذیر ہے۔اگر سلطان نے تمام شہروں کاذکرکیاہےتووہ تمام شہروں کاقاضی ہوگا،جیساکہ البحرالرائق میں ہے:وَمِنْهَا صِحَّةُ تَعْلِيقِهِ وَإِضَافَتِهِ وَتَقْيِيدِهِ بِزَمَانٍ وَمَكَانٍ، وَلَوْ لَمْ يُقَيِّدْهُ بِبَلَدٍ فَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ يَصِيرُ قَاضِيًا بِبَلَدِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ لَا فِي كُلِّ بِلَادِ السُّلْطَانِ۔ترجمہ:قضاکے احکام میں سے یہ ہے اس کو(سلطان کی جانب سے) کسی زمان ومکان سے معلق ومقید کرنا(کہ فلاں جگہ کایافلاں وقت تک کا قاضی بنایا)صحیح ہے،اور اگر کسی شہر سے مقید نہیں کیاتو قول مختار یہ ہے کہ اسی شہر کاقاضی ہوگاجس میں وہ رہتاہے،سلطان کے تمام شہروں کاقاضی نہیں ہوگا۔(البحرالرائق ج ۶ص۲۸۲)

معلوم ہوا کہ کسی خاص شہر اور اس کے مضافات کاقاضی وہ ہوتاہے جسے سلطان اسلام کسی خاص شہر کاقاضی نامزد کرتاہے اور قاضی القضاۃ وہ ہوتاہے جوکسی خاص شہر کاقاضی نامزد نہیں ہوتابلکہ اس کی ولایت تمام شہروں کومحیط ہوتی ہے،جیساکہ البحر الرائق کی اس 

عبارت سے بھی یہ بات ظاہر ہے:وَالتَّوْلِيَةُ لِلْقَاضِي إمَّا بِالْمُشَافَهَةِ لِلْقَاضِي بِقَوْلِهِ وَلَّيْتُكَ قَضَاءَ بَلْدَةِ كَذَا أَوْ جَعَلْتُك قَاضِيَ الْقُضَاةِ وَنَحْوَ ذَلِكَ أَوْ بِإِرْسَالِ ثِقَةٍ إلَيْهِ بِذَلِكَ أَوْ بِكِتَابٍ۔ترجمہ:قاضی کاتقرر یاتو بالمشافہہ ہوتاہے،مثلاً سلطان  بولےکہ میں نےتم کوفلاں شہر کاقاضی کیایابولے کہ میں نے تم کوقاضی القضاۃ بنایا،یااس کے پاس قابلِ اعتماد اشخاص یاخط کے ذریعہ یہ پیغام پہنچائے(البحرالرائق ج۶ص۲۹۵)۔

فقہائے احناف کے نزدیک بالاتفاق ہلال رمضان وعید میں اختلاف مطالع معتبر نہیں،لہذاایک شہر کی رویت ہلال سے دوسرے شہر والے رمضان اور عید کرسکتے ہیں جب کہ دوسرے شہر میں رویت کاثبوت بطریق موجب پہنچ جائے اور ثبوت ہلال کاطریق موجب سلطان ِاسلام یااس کےنائب (قاضی یاقاضی القضاۃ)کااعلان بھی ہے۔اگر کسی شہر کے قاضی کے پاس رویت کاثبوت پہنچے اور وہ  رمضان یاعیدکااعلان کرے تو وہ اس کے شہر اور اس کے مضافات کے لوگوں کے لئے حجت ہے،اس کے مطابق وہ رمضان یاعید کریں گے،اور اگر قاضی القضاۃ کے پاس ثبوت پہنچے اور وہ اعلان کرے تواس کااعلان صرف اس شہر اور اس کے مضافات کے مسلمانوں کے لئے حجت نہیں ہوگابلکہ تمام شہروں کے لئے حجت ہوگا،کیوں کہ قاضی القضاۃ کوولایت عامہ حاصل ہوتی ہے۔ جیساکہ امام برہان الدین ابن مازہ حنفی متوفی ۶۱۶ھ نے اپنی کتاب المیط البرھانی میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔

وہ فرماتے ہیں:قال نجم الدين رضي الله عنه: أهل سمرقند رأوا هلال رمضان سنة إحدى وثلاثين وخمسمائة بسمرقند ليلة الاثنين، وصاموا كذلك، ثم شهد جماعة عند قاضي القضاة يوم الاثنين، وهو اليوم التاسع والعشرين، إن أهل كثر (بل ھی کس بکسر الکاف وسکون السین  محلۃ کبیرۃ بسمرقند یقال لھابالفارسیۃ دروازہ کش،کذافی معجم البلدان لیاقوت الحموی۔۱۲رضا)رأوا الهلال ليلة الأحد، وهذا اليوم آخر الشهر، فقضى به، ونادى المنادي في الناس أن هذا آخر يوم، وغداً يوم العيد، فلما أمسوا لم ير أحد من أهل سمرقند الهلال، والسماء مصحية لا علة بها أصلاً، ومع هذا عيدوا يوم الثلاثاء.۔

ترجمہ:امام نجم الدین رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاہےکہ سن ۵۳۱ھ میں اہل سمرقند نے ایک بار پیر کی رات کوچاند دیکھ کر روزہ رکھا،جب ۲۹ رمضان پیر کادن آیاتو مقام ’’کِس‘‘( سمر قند کے قریب آباد ایک  بڑےشہر کانام ہے)سے ایک جماعت سمرقند کے قاضی القضاۃ کے پاس آئی اور اس نے گواہی دی کہ اہل ’’کِس‘‘ نے اتوار کی رات کوچاند دیکھ کر روزہ رکھاہے،اس حساب سے آج ۳۰رمضان المبارک ہے۔سمرقند کے قاضی القضاۃ نے ان کی گواہی پر فیصلہ کیااور لوگوں میں اعلان کرادیاکہ آج رمضان کاآخری دن ہے،کل عید کادن ہے۔جب شام ہوئی تو اہل سمرقند میں سے کسی نے چاند نہیں دیکھا حالاں کہ آسمان صاف تھا،اس میں بادل بالکل نہیں تھا،باوجود اس کے اہل سمرقند نے منگل کے دن عید کرلی۔(المحیط البرھانی ج۲ ص۳۷۹،فصل فیمایتعلق برویۃ الھلال)

اس واقعہ سے معلوم ہواکہ ’’قاضی القضاۃ‘‘ کااعلان دربارۂ ہلال صرف اسی شہر اور اس کے مضافات کے لئےخاص نہیں ہوتاجس شہر میں قاضی القضاہ رہتاہے،جیساکہ امام ابن مازہ قدس سرہ کے ذکرکردہ واقعۂ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ سن ۵۳۱ھ کوسمرقند کے قریب کے ایک شہر’کِس‘‘سے ایک جماعت نے سمرقند آکر قاضی القضاۃ کے سامنے ۲۹رمضان پیر کے دن یہ گواہی دی کہ انہوں نے اتوارکی رات کورمضان کاچاند دیکھ کرروزہ رکھاتھا،اس حساب سے آج پیر کادن ۳۰رمضان ہے،توقاضی القضاۃ نے ان کی شہادت کااعتبار کرکے اگلے دن منگل کوعید کااعلان کرادیا اورسمرقندکے جتنے شہراوران کے مضافات تھے،مثلاكرمانيہ،دبوسيہ،أشروسنہ ،شاش نخشب ،بناكثوغیرہ سب نے منگل کوعیدکی ،حالاں کہ ۲۹ کوشام کے وقت اہل سمرقند میں سے کسی نے چاند نہیں دیکھاتھا،جب کہ آسمان صاف تھا ،اس میں کچھ بھی ابرنہیں تھا۔

یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ شہر ’’کِس‘‘ کے لوگوں نے سمرقند کے قاضی القضاۃ کے پاس آکر گواہی کیوں دی تھی ؟جب انھوں نے اتوار کی رات چاند دیکھ کر رمضان شروع کیاتھا تو پیر کادن ان کے لئے ۳۰رمضان تھا،توتیس کی گنتی پوری کرکے انھیں عید کرلینی تھی،قاضی القضاۃ کے پاس گواہی پیش کرنے کی ضرورت کیاتھی ؟

اس سوال کاجواب یہ ہے کہ انھوں نے ازخوداپنی عید اس لئے نہیں منائی تھی کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ سمرقند اور اس کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں ایک ہی دن عید ہو،اس کے لئےانہیں اپنے شہر کے قاضی کے پاس گواہی پیش کرناکافی نہ ہوتاکیوں کہ اس کادائرۂ قضاپورے سمرقند کومحیط نہ تھاتو لامحالہ سمرقند کے قاضی القضاۃ کے پاس گواہی پیش کرناتھاتاکہ اس کااعلان پورے سمرقند والوںکے لئے حجت ہواور تمام اہل سمرقند ایک ہی دن عید مناسکیں۔اگر ایسا نہ کیاجاتااورسمرقند کے جن لوگوں نے پیر کی رات رمضان کاچاند دیکھ کر روزہ رکھناشروع کیاتھا ہوسکتاتھا کہ انھیں تیس کی گنتی پوری کرنی پڑے اور انہیں عید منگل کے بجائے بدھ کو کرناپڑےتودودن عید ہوگی ،لہذااہل ’’کس‘‘ نے چاہاکہ وہ اور سارے اہل سمرقند منگل کوعید کرلیںاور اس کی ایک ہی صورت تھی کہ سمرقند کے قاضی القضاۃ کے پاس گواہی گزاری جائے تاکہ ان کافیصلہ اوراعلان پورے سمرقند والوں کے لئے حجت ہوجائے۔اس کے برخلاف اگر وہ اپنے شہر کے قاضی یاسمرقند کے کسی اور قاضی شہر کے پاس جاتے تو ان کایہ مقصد پورانہ ہوتا،کیوں کہ اس شہر کے قاضی کااعلان تمام اہل سمرقند کے لئے حجت نہ ہوتا،بلکہ صرف اسی خاص شہر اور مضافات شہر والوں کے لئے ہوتا۔ علامہ یاقوت حموی نے مقام ’’کس‘‘ کومحلۃ کبیرۃ بسمرقند کہاہے اس سے یہ شبہ نہ ہوکہ یہ کوئی دیہات تھا،کیوں کہ عربی میں محلہ شہر کے لئے بھی مستعمل ہے،کس سمرقند کاایک بڑاشہر تھا جس کے تحت کئی گاؤں آتے تھے،جیسےخَشُونَنْجَکَث،خُشْمِنْجَکث،غَرْدِيانُ،غَزْنَيَانُ اورمَرْغَبَانُ وغیرہ شہر ’’کس‘‘ کے گاؤں تھے ،بلکہ خشوننجکث جسے ’’کس‘‘ کاایک قریہ کہاگیاہے وہ سمرقند کاایک ضلع تھاجیساکہ یاقوت حموی نے لکھاہے:خَشُونَنْجَكَث:بفتح أوله، وبعد الواو الساكنة نونان الأولى مفتوحة والثانية ساكنة، وجيم مفتوحة، وكان مفتوحة وآخره ثاء مثلثة: من قرى كسّ متصلة بقرى سمرقند وكانت من أعمال سمرقند۔یعنی خشوننجکث شہر سمرقند سے متصل ایک شہر ہے جوسمرقند کاایک ضلع ہے۔(معجم البلدان ج۲ص ۳۷۴)

واقعۂ مذکورہ سے پتہ چلا کہ رویت ہلال کے باب میں بھی قاضی القضاۃ کادائرۂ قضا صرف اس کے شہر اور اس کے مضافات میں محدود نہیں ہوتا۔اگر کوئی اس کوقاضی کے شہر سے مخصوص کرتاہے تواس پر لازم ہے کہ یہاں قاضی القضاۃ کی ولایت عامہ کی تخصیص پہ دلیل کیاہے؟

بعض حضرات کویہ شبہہ ہواہے کہ سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے فتاوی رضویہ میں لکھاہے کہ رویت ہلال کے باب میںقاضی اورقاضی القضاۃ  دونوںکادائرۂ قضا صرف اسی کے شہر اوراس کے مضافات تک محدود ہوتاہے،حالاں کہ فقیر راقم الحروف کو ایسی کوئی عبارت فتاوی رضویہ میں نظر نہیں آئی،اس کے برخلاف فتاوی ٰ رضویہ میں متعدد مقامات پہ قاضی القضاۃ کی ولایت کو ولایت عامہ قراردیاگیاہے۔ وہ حضرات دلیل تخصیص میں یہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کوچاند کاشرعی ثبوت ملا اور آپ نے اس کے مطابق بریلی شریف اور اس کے مضافات کے لئے اعلان فرمایا،یہ اعلان کسی ذریعہ سے پیلی پھیت پہنچااور وہاں کے لوگوں نے اس اعلان پر عمل کرناچاہاتو آپ علیہ الرحمہ نے سختی سے منع فرمایا اس سے ثابت ہوتاہے کہ قاضی القضاۃ کااعلان صرف اس کے شہر اور مضافات شہر والوں کے لئے قابل عمل ہوتاہے۔اس پر عرض یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے اِس عمل سے قطعایہ ثابت نہیں ہوتاکہ دربارۂ ہلال رمضان وعید قاضی القضاۃ کااعلان صرف اس کے شہر ومضافات کے لئے خاص ہوتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخاں قدس سرہ امدنا اللہ بعلومہ وفیوضہ اپنے وقت میں غیر منقسم ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں فقید المثال فقیہ ومفتی تھےاوربجاطورپر منصب ِقاضی القضاۃ فی الہند کے اہل بھی تھے،لیکن کمالِ تقویٰ وورع کی بناپر آپ نے اپنے آپ کوقاضی القضاۃ کے عہدے پر متمکن نہیں گردانا،لیکن چوں کہ قضائی امور کی انجام دہی کی ضرورت لاحق تھی اورآپ سے بہتر اس کااہل کوئی اور نہیں تھااس لئے بریلی شریف ومضافات کے لئے قضاکی ذمہ داری کوانجام دیااور ہندوستان کے دیگر شہروں میں عام طورپرقاضی یااعلم علماے بلد کے ضرورت قضاکی تکمیل ہونے کے سبب قاضی القضاۃ کی ذمہ داری اٹھانے سے خود کودور رکھا،اور خود کوقاضی شہر کی منزل میں رکھتے ہوئے اپنے اعلان کوصرف بریلی ومضافات بریلی کے لئے محدود رکھا اور پیلی بھیت والوں کو اس اعلان پر عمل کرنے سے منع فرمایا۔اس سے ہرگز یہ نہ سمجھاجائے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ قاضی القضاہ کے منصب کے لائق نہیں تھے۔قاضی القضاہ کااہل ہونا اور ہے اور اس عہدے کو قبول کرکے اس کی متعلقہ ذمہ داریاں نبھانے کواپنے ذمہ لازم کرنا اور ہے۔امام الائمہ کاشف الغمہ امام الشرق والغرب سیدناامام اعظم ابوحنیفہ قدس اللہ سرہ بلاشبہ اپنے وقت کے قاضی القضاۃ اور قاضی الشرق والغرب کے منصب کے اہل بلکہ سب سے بڑے اہل تھے،لیکن آپ نے کمال تقویٰ وورع کی بناپر اس منصب کوقبول نہیں فرمایااور قضاکی ضرورت کی تکمیل کے لئے اپنےلائق وفائق شاگرد امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کوپیش فرمایا۔توجس طرح قاضی القضاۃ کے منصب کے لائق ہونے کے باوجود امام اعظم قدس سرہ نے قاضی  القضاۃ کے عہدے سے خود کودور رکھا اور اس کی ذمہ داریاں نہیں اٹھائیں اوراس کے سبب آپ کے فضل وکمال اور علمی سطوت پہ کوئی حرف نہیں آیا،اسی طرح اگر امام احمدرضا قدس سرہ نے قاضی القضاہ کے منصب کے لائق ہونے کے باوجود بحیثیت قاضی القضاۃ اپنے اعلان کوپیلی بھیت یا پورے ہندوستان کے لئے واجب العمل قرار نہیں دیاتواس سے آپ کی علمی فقہی عبقریت اور علومرتبت پر کچھ نقص لازم نہیں آتا،بلکہ اس عہدے کے لائق ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے دور رکھنا آپ کےکمال تقویٰ وورع کی دلیل ہےجوصرف اللہ کے محبوبین کاحصہ ہے۔

اب رہی بات حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ کی، تومجھ فقیر کوبہار شریعت یاآپ کے فتاوی میں کہیں یہ بات نظر نہیں آئی کہ قاضی القضاۃ کااعلان ِرویت ہلال صرف اس کے شہر ومضافات شہر کے لئے مخصوص ہے،ہاںآپ نے یہ بات قاضی شہر کے لئے تحریر فرمائی ہے،قاضی القضاۃ فی الہند کے لئے نہیں۔

ہذاماظہرلی من مراجعۃ کتب الفقہ ولعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے