Header New Widget

خود نوشت ڈائری علامہ مقبول احمد سالک مصباحی

 درد و کرب میں ڈوبی ہوئی اس تحریر کو پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں، خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں تجھ میں اے خوشا نصیب! 


 خود نوشت ڈائری علامہ مقبول احمد سالک مصباحی____

انیس سو نوے (1990) میں ازہر ہند مادر علمی الجامعۂ الاشرفیہ مبارک پور سے فارغ ہوا.انیس سو اکیانوے (1991)  سے لے کر چورانوے تک دارالعلو م ندوۃ العلما لکھنؤ سے عربی زبان و ادب کی اعلی تعلیم حاصل کیا.اور عالیہ ثالثہ عربی ادب اور قسم التخصص فی الادب العربی کے دو کورسز اعلی امتیازی پوزیشن سے پاس کیا. دوران تعلیم دو درجن سے زائد عربی مضامین ملک اور بیرون ملک کے معیاری عربی رسائل وجرائد میں شائع ہوے.ولا فخر لی بذلک. انیس سو چورانوے سے الجامعۂ الاشرفیہ مبارکپور میں عربی زبان و ادب کی تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیا، اور ستانوے (1997) تک یہ سلسلہ چلا.انیس سو اٹھانوے اور ننانوے میں جامعة مركز الثقافة السنية (کالی کٹ کارندور کیرالا) میں عربی زبان وادب کا نہ صرف سینئر استاذ مقرر ہوا بلکہ عربی ادب کے شعبے کو منظم کیا اور اس سلسلے میں نئی بیداری پیدا کی.انیس سو اٹھانوے (1998)  سے دو ہزار دو تک جامعہ حضرت نظام الدین اولیا میں خدمت کا موقعہ ملا، جس میں اس کے نصاب تعلیم کی تجدید کی اور انتہائی معمولی مشاہرے پر زاہدانہ طریقے سے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا.جامعہ ازہر مصر سے الحاق کا مسئلہ آیا، جی جان سے لگ گیا.علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ کی مستجاب دعائیں رہیں اور شیخ ابوبکر کی کوششیں بھی. میرے دوست اور جامعہ ہذا کے سابق استاذ محمد حسین خان ندوی کے سعی پیہم سے خداخدا کرکے ازہر کا دروازہ کھلا.غالبا جامعہ حضرت نظام الدین اولیا کیرالا کے بعد اہل سنت کا دوسرا خوش قسمت تعلیمی  ادارہ تھا جہاں سے میری پرنسپل شپ کے دوران اہل سنت وجماعت کے فضلا کا پہلا قافلہ جامعہ ازہر کی فضاؤں میں پہنچا.یہ رئیس القلم کے واسطے سے الجامعة الأشرفية کا ہی فیضان تھا کہ جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل سنی ازہری علما کی قطاریں لگ گئیں.آج الحمد للہ بستی بستی قریہ قریہ فیضان حضور حافظ ملت اور ان کے چہیتے شاگرد علامہ ارشدالقادری کا عرفان نظر آرہا ہے۔

_____سن دوہزار دو (2002) میں حالات سےسمجھوتہ کرکے توكلا على الله تین ہزار اسکوائر فٹ قطعہ اراضی کا سودا کیا،جو بعد میں جامعہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے نام سے قوم و ملت کی امانت بن گیا.اس زمین کی خریداری مین فقیر قرضوں کے بار تلے دب گیا.بسیار کوششیں کین.بڑے بڑے آستانوں کی جبیں سائی کی. ناک رگڑتےرگڑتے گھس گئی مگر کسی کو بھی رحم نہیں آیا.رحم آیا تو غرباء امت کو جنھوں نے سوسو پچاس روپوں کے ذریعہ اپنی قربانی پیش کی.دوسری جانب دہلی کے وہابیہ سے بھی آویزشوں کا سلسلہ جاری رہا. جان مال کے ساتھ ہمیشہ عزت وآبرو کو بھی خطرات لاحق رہے.مگر جس بستی نے سن دو ہزار آٹھ میں میلاد النبی کی محفل سجانے سے انکار کردیا تھا آج اسی بستی میں جلوس عید میلاد النبی کے موقعے پر پندرہ سے بیس ہزار غلامان مصطفی کا کارواں اکٹھا ہوتا ہے.

دو ہزار دو سے لے کر دوہزار آٹھ تک.مسلسل ممبئی اور ملک کے دوسرے شہروں کی خاک چھانی ہے.تب جاکر جامعہ خواجہ کا قرض ادا ہوا اور باضابطہ تعلیمی سلسلہ شروع ہوا.اسی درمیان عربی ماہنامہ صوت الہند کا منصوبہ علما اور عوام اہل سنت کے سامنے رکھا.اور دو سال مسلسل کوشش کی.جس کا پہلا شمارہ العدد الخاص حول شخصية الإمام أحمد رضا خان تھا.اور یہ میری زندگی کا آخری خواب تھا مگر دوسال کی جان توڑ صحرا نوردی کے بعد اعلی حضرت کے نام پر اس قوم کے سرمایہ داروں نے صرف اٹھارہ ہزار روپے دیے.اور اس عرصے میں کم از کم کرٹرانسپورٹ اور اسٹیشنری کے مد میں ہی صرف ایک لاکھ سے زاید خرچ ہوے.اپنا سارا اندوختہ اعلی حضرت پر عربی میں خصوصی شمارہ نکالنے کے نام پر سوخت ہو گیا.کمال تو یہ ہے کہ اپنی جیب خاص سےتقریبا ڈھائی سو صفحات عربی مضامین کمپوز کرا رکھے تھے مگر جس امام اور عالم کے سامنے رکھا اس نےیہی کہا کہ مو لانا عربی میں کون پڑھے گا؟بلا وجہ آپ جان دے رہے ہیں.میرا ارادہ تھا کہ اس عربی رسالے کے ذریعہ عالم عربی میں اہل سنت و جماعت کا رابطہ استوار کروں گا اور اہل سنت کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنےپیش کروں گا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شود.عربی کے بارے میں میری خدمات اور ذوق وشوق ہمارے دوستوں کو معلوم ہے.زیادہ لکھنا خود ستائی کے زمرے میں آجائے گا.اس کی مثال لکھنؤ کی طالب علمانہ زندگی میں میں اور میرے دوست مولانا محمد حسین ندوی مولانا سرفراز احمد ندوی غازی پوری،مولانا تاج محمد ندوی بغدادی اور مولانا معراج احمد ندوی بغدادی اپنے ناشتہ پانی سے پیسے بچا کر عربی میں ایک رسالہ الفکرالاسلامی کے نام سے لکھنؤ سے نکالنا شروع کیا تھا.تقریبا ایک سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا ہماری رگوں میں اس سے زیادہ خون ہی نہیں تھا.کسی کرم فرما نے رسالہ ملنےپر شکریہ تک کا خط بھی لکھنا گوارا نہ کیا.کیا کرتے ہمت جواب دے گئی.رسالہ بند ہو گیا.خوشی ہے کہ آج میرے کچھ دوست ہماری اس آواز  اور آرزو کو مجلة عربية "المشاهد" کے نام سے عملی شکل دےرہےہیں.اللہ تعالی اسےعمر خضر عطا فرمائے.

______ندوہ میں قیام کے دوران طلبہ کی لائبریری  الاصلاح میں علامہ محمد احمد مصباحی اور علامہ عبد المبین نعمانی کے توسط سےعلمائے اہل سنت خاص کر اعلی حضرت قدس سرہ کی ڈیڑھ سو کتابیں رکھوائیں.یہ کتابیں تقریبا چھ ماہ تک لائبریری میں   رہیں.بعد میں اطلاع ملنےپر خالد ندوی غازی پوری نے انھیں ضبط کر لیں.اور بہت سی قیمتی کتابیں زیروکس کرواکر اشرفیہ لائبریری بھی ارسال کروائیں.ممبئی میں قیام کے دوران ہی دوسالوں تک رضا اکیڈمی کے لیے بھی کام کیا اور اس کی وساطت سے مہارشٹرا اور دیگر صوبہ جات کا دورہ کیا.سعید نوری صاحب کا حکم ہوا کہ سرکار مفتی اعظم ہند کی سیرت وسوانح پر تاریخی اور تفصیلی کام کیا جائے.علامہ عبد المبین نعمانی اور علامہ یسین اختر مصباحی کے ساتھ میٹینگ کے بعد یہ قرعۂ فال میرے نام نکلا. میں تن من دھن سے اس کام میں لگ گیا. اسی بیچ میری والدہ محترمہ کی طبیعت شدید علیل ہوئی.میں گھر حاضر ہوا قسمت کی ارجمندی کہ میری بوڑھی ماں نے مجھے اپنی بارگاہ میں آخری باریابی کا موقعہ عطا فرما دیا.سعید نوری صاحب کا اصرار بڑھا تو میں ٹوٹے دلوں اور برستے آنسؤوں کے ساتھ سارے مسودات لے کر مبارک پور حاضر ہو گیا اور تین ماہ تک اشرفیہ اور المجمع الاسلامی کا کھاتا رہا.اساتذہ اور طلبۂ اشرفیہ نے عبادت سمجھ کر اس کار خیر میں تعاون کیا۔ اس موقعے سے محب گرامی مولانا اختر حسین فیضی مصباحی.مولانا محمد نعیم الدین عزیزی.مولانا زاہد علی سلامی. مولانا مبارک حسین مصباحی.مولانا قاسم مصباحی.مولانا حسیب مصباحی.مولانا نفیس احمد مصباحی. مفتی نظام الدین رضوی.مولاناصدرالوری مصباحی وغیرہ نے اتناپیار دیا کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا.سبھی کام کی اہمیت کے پیش نظر مجھے ہاتھوں ہاتھ لیے رہے.خاص کر حضرت سربراہ اعلی برابر کام کے بارے میں پوچھتے رہے اور حوصلہ افزائی کرتے رہے.مولانا محمد احمد مصباحی قبلہ نے جہان مفتی اعظم کی تصحیح اور واقعات کی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا.غیر معتبر روایات کو کاٹ چھانٹ کر ایک معتدل مجموعہ تیار کردیا.فقیر سالک مصباحی سرکار حافظ ملت کے کرم سے اپنے مخصوص ادبی ذوق کی روشنی میں جہان مفتی اعظم کو تحقیق وتدقیق اور تہذیب و تنقیح کا اعلی گلدستہ بنانے کی بھر پورکوشش کی.آج یہ مجموعہ تقریبا چودہ سو صفحات پر مشتمل عظیم الشان رضوی نوری انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں موجود ہے.آج یہ مجموعہ اپنے بعد آنے والے محققین کے لیے آئیڈیل اور نمونے کا کام کر رہا ہے.ممبئی ہی کے قیام کے دوران فقیر ایک عظیم الشان تحقیقی اور دعوتی دورے پر دبئی پہنچا اوروہاں پر جد الممتار مع الدرالمختار والردالمحتار کی ترتیب جدید کا کام شروع کیا الحمد للہ تین مہینےکے اندر تقریبا چار جلدوں کا کام مکمل کیا.ہندستان واپسی ہوئی ریجنل ویزا لے کر آیا۔ اس وقت کے قانون کے مطابق ویزیٹنگ ویزاکو پرماننٹ ہونے کے لیے ملک سے باہر جانا ہوتا تھا.بس یہی چیز میرے گلے کی ہڈی بن گئی.میں کوشش بسیار کے باوجود مقصود ٹراویلس کی مہربانی سے نہیں جاسکا.اور ویزا کی مدت ختم ہو گئی.خدا کی مرضی یہی تھی ورنہ جدالممتار کی ایڈیٹنگ کا جو کام ہوا ہے وہ بھی میرے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوتا۔

_____دو ہزار آٹھ (2008) سے لے کر اب تک  مسلسل دعوتی وتبلیغی دورہ جاری ہے.کسی بھی قلم کار کے مقابلے میں اج بھی کم نہیں لکھتا ہوں.ولا فخر لی بذلک.اور دہلی میں فقیر نے جو کچھ کیا ہے اس کا تذکرہ بے سود ہے۔ اس کا اجر دینے والا اللہ رب العزت ہے۔ نہ مرا نوش زتحسیں نہ مرا ہوش ذمے. بیس سالوں سے مسلسل جو کچھ کماتا ہوں  اس کا ایک معتد بہ حصہ جامعہ بختیار کاکی کے نام وقف ہے.میرے دل میں روپے کمانے کی ہوس کبھی نہیں پیدا ہوئی ورنہ ہاتھ پاؤں ہمارے بھی پاس تھے.یہ میری غلطی بھی ہو سکتی ہے اور میری قربانی بھی.اللہ علیم وخبیر ہے.مگر ابھی بھی میرے دوستوں کی ایک بڑی تعداد کو بد گمانی ہے کہ میں جامعہ بختیار کاکی کے سہارے زندہ.ہوں.قارئین بس ایک لفظ جامعہ ہٹادیں،میں صرف بختیار کاکی کے سہارے زندہ ہوں.مشکل وقت میں انھیں سے بھیک مانگی تھی.جو کچھ ہے انھیں کا فیض ہے.کوئی اور آنکھ دکھانے کی کوشش نہ کرے.

_____ہندستان میں بڑے بڑے فتنے آئے اور آرہے ہیں بلکہ لگتا ہے زمین ہند اہل سنت کےلیے دارالفتن بن گیا ہے اور پورا عالم اسلام دارالمحن.ہرطرف فتنوں کی بارش ہو رہی ہے ، جیسا کہ احادیث کریمہ میں ارشاد ہوا کہ: فتنے اس طرح برسیں گے جیسے بارش کے قطرے تمھاری آبادیوں میں گرتے ہیں. پورے ملک میں پچھلے بیس سالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر برابر نظر رہی ہے. ہماری جماعت کی لامرکزیت کے تین بنیادی اسباب ہیں.ان شاء اللہ ان اسباب سے ہر ذی ہوش اتفاق کرے گا.

نمبر.ایک...ہماری جماعت کےعلما پر جہلا حاکم ہو چکے ہیں.ہماری جماعت کے چوٹی کےعلما و مشائخ کے فیصلے بہت حد تک متاثر ہیں.جب کہ دوسری جماعتوں کےرؤسا علما کے ماتحت ہیں.

نمبر دو....ہماری جماعت میں فی الحال سادات کا ادب واحترام مجروح ہو چکا ہے.نمک خوار مولوی کتوں کی طرح سادات پر بھونک رہے ہیں، حتی کہ اجمیر معلی کی بھی عزت محفوظ نہیں.اور سادات کی بے ادبی کرنے والی قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی.کیونکہ فلاح قرآن پاک اور اہل بیت کی اتباع اور ملازمت پر موقوف ہے.ساتھ ہی سادات کو رافضی اسی لیے بہ آسانی یرغمال بناکر اہلسنت سے توڑ رہے ہیں، دیگر فرقوں نے انہیں بدنام کیا اور ہم نے ان کی عزت نہیں کی اور نتیجتاً تیسرے فریق نے انہیں اپنی طرف مائل کرنا شروع کردیا۔

نمبر تین.جماعت کے چوٹی کے علما و مشائخ امت کے داخلی مسائل سے بے پروا ہو چکے ہیں یا تو وہ عافیت کو تر جیح دے رہے ہیں.اور یا تو جان بوجھ کرقوم ک لڑائی میں اپنی بھلائی محسوس کر رہے ہیں.

ایک چوتھی وجہ بھی ہو سکتی ہے.وہ ہے نوعمر جہال لونڈوں کا بڑوں کی دستار عزت ووقار پر حملے کرنا اور بات بات میں گالی گلچ کرنا.مشرب کے نام پر قتل وخوں ریزی کا بازار گرم کرنا.وغیرہ اب جس کو بھی تھوڑا ساموباءل آپریٹ.کرنے کا  ڈھنگ آگیا.فورا مادر پدر پر اتر آیا.

اس طرح پوری جماعت میں غدر کا عالم برپا ہے.غرضے کہ ہر مولوی مصر کا بلواءی بن چکا ہے اور ہر ایماندار اور شریف الطبع شخص کے خون کے در پے ہے.اب دو ہی راستے ہیں.ایک تو یہ کہ آپ شکست تسلیم کر کے کنج خمولی اختیار کر لیں.جسے سکوت بھی کہہ سکتے ہیں.جیسا کہ حضرت ابن عمر کا مسلک ہے جنھوں نے نہ علی کا ساتھ دیا اور نہ امیر معاویہ کا.

دوسرے یہ کہ آپ بھی جنگ کا ایندھن بن جاءیں.اور لڑویا مرو کی راہ پر چل پڑیں.فاما لک واما علیک ہوگا.اب یہ ہمت ہمت کی بات ہے.کہ کوں کہاں تک جاتا ہے.

مجھ سے لوگ کہہ رہے ہیں آپ کچھ مت بولیے.کام کیجیے.آپ ہی بتاءیں کیا کام کروں.جو بھی کام کرنا چاہوں گا چار دشمن تیار ملیں گے.آخر چھبیس سالوں سے کام ہی تو کر رہا ہوں.کیا مسجد میں بیٹھ کر تسبیح پڑھوں.کیا باورچی بن کر کسی مدرسے میں امور خانہ داری انجام دوں؟ یا.کسی پیر سے خلافت لے کر مکاری کابازار گرم کروں.شعبدے بازی کروں.کرتب دکھاؤن؟.یاکسی سرمایہ دار کے دربار کی دربانی کروں.جنگل کی لکڑیاں کاٹوں یا سیٹھوں کے بوٹ میں پالیش لگاؤں.علم حاصل کیا تو زندگی کی سب بڑی بھول کیا.اللہ نے علم سے نوازا تو بریلوی جماعت مین ہمیں پیدا کر کےہمارے آنےوالے گناہوں کی ہمیں سزا دی.کیسے دین کی خدمت کروں؟مزاج حضور دیکھ کر رات کو دن کہوں.سیاہ کو سفید کہوں.حق کونا حق کہوں؟قلم عطا ہوا ہے اسے توڑ دوں.زبان ملی ہے تو اسے کاٹ کر پھنک دوں.کچھ نہ کہوں.کچھ نہ بولوں.جب وہی بولنا ہے جو تو چاہتا ہے تو میرے بولنے کا فاءیدہ.؟مجھے بے زباں کردے.مجھ سے اس کا باراحساں نہیں اٹھنے والا ہے.عقل ملی ہے خیروشر کی تمیز کے لیے.اسے گٹر میں ڈال دوں.؟یا بھیجا فراءی کر کے کھا جاؤن؟کیا سوچوں؟.سوچوں تو وہی جو تو چاہتا ہے تو پھرمیری عقل کا فاءیدہ.ارے کب سے تم نے رسول اللہ کی امت کو اپنا غلام بنا لیا؟سچ ہے جب سے حسین کا سر کٹا تب سے ذلت وخست کانام حکمت پڑ گیا.اورضمیر فروشی اوربے حسی کا نام الفت و عقیدت .بولنا گناہ ہوا لکھنا عذاب. یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرماءیں یہود.عبید اللہ ابن زیاد کے دربار مین کوفیوں کی سنگ دلی اور بزدلی پر تڑپ کر مشہور صحابی حضرت زید ابن ارقم نے کہا تھا.کہ آج ایک غلام نے امت محمد کو غلام بنا لیا ہے.اگر یہی بے زبانی ادب ہے تو بتایا جاءے بلال کو آزادی.کیوں چاہیے تھی؟اگر ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا گستاخی ہے تو بتایا جاءے امام اعظم کو زہر کا پیالہ پینے کی کیا ضرورت تھی. اج تو کافی طویل عرصہ گزر گیا .حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض حکام کے معمولی زیادتی کو دیکھ کر کہا تھا کہ ان کی ماؤن نے تو انھیں آزاد پیدا کیا تھا کب سے تم نے انھیں غلام بنا لیا.آج پوری سنیت کا مزاج بنی اسراءیل کی طرح ہو گیا ہے اب انھیں ازادی راس نہیں آرہی ہے ان کو میدان تیہ میں ڈال کر من وسلوی کھلانے کا وقت آگیا ہے.تاکہ ان کا ضمر بیدار ہو جاءے.غلامی کے جراثیم ختم ہوں. اور یہ آزاد فضا میں سانس لے.کر اپنے آپ کو انسان محسوس کر سکیں.

اے اللہ.جل شانہ تو اپنے محبوب کی امت پر اپنی رحمت نازل فرما. اس قوم کےعلماکی زبانوں پہ حق جاری فرما دے.ان کا قلم آزاد کر دے.ان کی عقل کی گرہیں.کھول دے.لوٹادے انھیں پھر اسی صحرا مین جہاں یہ نان جویں کھاتے تھے اور پتھروں کا کلیجہ چاک.کر کے اب زلال کے چشمے ابالتے تھے.مولا تعالی!سرمایہ داروں کی مرغن غذاءؤں نے ان کی عقلوں کو ماؤف کردیا ہے.پھر انھیں وہی کوہ و صحرا دے پھر وہی وسعت جہاں گیری.

یہ امن کے دن.گذارتے گذارتے تھک چکےہیں.اب یہ آدم.خور بھیڑیا بن گءے ہیں. اب یہ مسلک کے نام پر اپنےہی ہم زادوں اورہم عقیدوں کا خون بہانے.لگےہیں..شاید یہ پھر خانہ بدوشی کی زندگی چاہتے ہیں. ہندستان جنت نشان کی پر سکون زندگی ان کے مضراب شر کو چھیڑ رہی ہے.

ظالمو.اللہ کی نعمت کی قدر کرو.ہندستان کو عراق وشام نہ بناؤ.تمھیں مٹتے زیادہ دیر نہیں لگے گی.دشمن تاک میں بیٹھا ہے.بس ایک آغاز کی ضرورت ہے.خدا نہ کرے ایسا ہو..جسے تم جذبہ دینی کہہ رہے ہو وہی جذبہ دینی تھا جس نے اہل عراق پر تاتاریوں کو مسلط کیا.شانت ہو جاؤ.جیو اور جینے دو.کے اصول.پر عمل.کرو.ایسے ہی حالات حکمرانو ں کو یہ اصول لاگو کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ مذہب پرسنل میٹر ہے.کیونکہ اہل.مذہب نے اکثر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے خونی رشتو ں کے ساتھ بھی زندہ نہیں رہ سکتے تو پھر اجنبیوں کا کیا حال.ہوگا.

اشرفی.رضوی.قادری.برکاتی.چشتی.سہروردی.مداری

.نظامی صابری.قلندری.ابوالعلاءی.جہانگیری.فریدی.قطبی.کیا سب ایک نہیں.مگر کیا طاقتور کمزور کو جینے کا حق دے رہا ہے.خانقاہیں جو بے نفسی کا درس دینے آءیں تھیں اب دنیا کا سب سے موٹا نفس وہیں.پایا جاتا ہے.بڑا سے بڑا سجادہ نشین دنیا کابڑا سے بڑا جھوٹ بول سکتا ہے.اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والا مذہب کا دشمن.کیا زمانے میں پنپے کی یہی باتیں ہیں.؟

فقیر مقبول احمد سالک مصباحی.

نیو دھلی مورخہ ۱۲ مءی ۲۰۱۶ بروز جمعرات

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے