قیام مکاتب اور نظام مکاتب وقت کی ضرورت و اہمیت
موجودہ حالات میں
مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اگلی نسلوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے طریقہ کار
پر غور کریں اور ایسا راستہ اختیار کریں کہ ہمارے بچے عصری تعلیم میں بھی آگے ہوں۔
اور ان کی دینی پہچان بھی پوری طرح قائم رہے ۔اس کے لیے سب سے مفید اورآزمودہ طریقہ
قیام مکاتب اور نظام مکاتبہے۔
نظام مکاتب پر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ بچوں کے اندر
دین کی روح کیسے پھونکا جائے اس کا طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے۔ جب ہم نظام مکاتب کے
حوالے سے قرآن مجید پاک کا جائزہ لیتے ہیں
تو ہمیں کئی چیزیں ملتی ہیں۔ قرآن مجید میں جن اولوالعزم پیغمبروں کا ذکر آیا ہے
ان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر بھی ہے۔ جن کا ذکر مختلف عنوان کے تحت قران مجید میں
سولہ مرتبہ آیا ہے۔ ان کے والد حضرت
اسحاق علیہ السلام ہیں۔ جن کا ایک نام اسرائیل بھی ہے۔ بنی اسرائیل دراصل آپ ہی کی
اولاد ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں، جن کے
متعلق قران مجید میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہیں اور ان کی داستان زندگی کو اللہ
عزوجل نے احسن القصص کے نام سے ذکر فرمایا۔
گویا حضرت یعقوب علیہ السلام کا پورا خانوادہ نبیوں اور رسولوں کا خانوادہ
ہے۔جس میں باپ ،چچا ،دادااوربیٹا سب اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ اس خاندان میں کس قدر دینداری ،تقوی اور خشیت الہی رہی ہوگی اور گھر کے
پورے ماحول پر کیسی اعلی دینی فضار ہی ہوگی۔
ایسے دین دار گھرانے کے افراد سے گناہ اور معصیت کا اندیشہ بھی لوگوں کو نہیں
ہوتا چہ جائے کہ کفر و شرک کا خوف ان میں ہو۔
لیکن جب حضرت یعقوب علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا
تو انہوں نے اپنے صاحبزادوں سے سوال کیا؛ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟تو ان
لوگوں نے جواب دیا :"ہم آپ کے خداآپ کے باپ ،دادا، ابراہیم ،اسماعیل اور
اسحاق علیہم السلام کی خدا یعنی ایک ہی خدا کی عبادت کریں گے۔
اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے" اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹوں کو جو خود نبی تھے وصیت فرمائی۔ بے شک اللہ
تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرما لیا ہے اس لیے اسلام ہی کی حالت میں تمہیں موت آنی
چاہیے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ انبیاء کرام اپنے بچوں کے سلسلے میں اس بات کی فکر مند ہیں کہ وہ دین پر قائم رہیں اور ان کو دین پر قائم رہنے کی حالت میں موت آئے۔ جب انبیاء کو اپنی اولاد کے بارے میں اتنی زیادہ فکر مندی تھی تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عام مسلمانوں کو اس
سلسلہ میں کتنا
فکر مند ہونا چاہیے۔
آج ہماری نفسیات
یہ ہے کہ ہم اپنی خاندانی روایات پر یقین کر کے اپنے بال بچوں کے بارے میں مطمئن
ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچے اسی دین کے حامل رہیں گے جو ہمیں ہمارے ماں باپ کی طرف
سے ملا ہے۔
ہماری نسل ہی
مستقبل کے رجال کار اور ملت کے معمار ہوتے
ہیں اس لیے ان کی ذہنی و اخلاقی نشونما اسلامی تعلیمات پر ضروری ہے ایسے ماحول کا
فراہم کرنا ان کے لیے ضروری جس میں خالص اسلامی تہذیب کے چھاپ ہو اور اجنبی ثقافت
کے تمام ایمان سوز اثرات سے پاک ہو اور یہ حقیقت بھی چشم کشا ہے کہ معاشرہ اور
سوسائٹی میں مکاتب کا قیام بقائے اسلام کا ضامن اور تحفظ ایمان کا کفیل ہے۔ ان
مکاتب سے علم کی روشنی نکل رہی ہے اس سے پوری دنیا سیراب وہ فیضیاب ہو رہی ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان مکاتب کے نظام کی مضبوطی کی وجہ سے
کفرستان میں بھی ایمان باقی رہ سکتا ہے۔ بچے چونکہ خالی الذہن ہوتے ہیں اسی لیے
بچوں کے معصوم ذہن پر مکتب کی تعلیم کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ قیام مکاتب کے بعد نظام
مکاتب کی کچھ اس طرح ہونا چاہیے کہ باطل نظریات وہ خیالات سے پاک کرنا از حد ضروری
ہے اس لیے اس سلسلے میں علماء حفاظ کو نائبین رسول اور وارثین انبیاء ہونے کی حیثیت
سے ہر ہر محلے کی ہر ہر مسجد میں منظم طور پر مکاتب کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔
اور مستحکم انداز میں با تجوید قرآن کی تعلیم ہو ،احادیث نبویہ ،ادعیہ یومیہ کا
حفظ ہوں اور عقائد اہل سنت کی تفہیم ہوں ،منتخب احادیث وآیات کے ترجمے ، عبادت و
معاملات اور شخصی زندگی سے متعلق ضروری احکام نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اور انبیاء کرام کی سیرت اور تاریخ ہند جیسے اہم مضامین شامل نصاب ہوں اور ان کی
باضابطہ تعلیم ہوا کرے اردو زبان بھی اس نصاب کا ایک اہم جز ہو تاکہ وہ اپنے اسلاف
کے علمی ورثہ سے جڑے رہیں۔
عام طور پر مکتب
کی تعلیم سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں قاعدہ بغدادی اور پارہ عام جیسے تیسے پڑھا
دیا جاتا ہے اور چند کلمات اور دعائیں یاد کروا دی جاتی ہیں بس اتنے کو کافی
سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل تعلیم سے خالی اور ایمانیات سے بالکل عاری
ہوتے ہیں ۔اسے ایمانیات سے کچھ معلوم نہیں ہو پاتا ہے اور نہ ہی دین کی بنیادی
امور کی جانکاری ہوتی ہے ۔ایسے میں ہماری یہ نئی نسل دین وہ ایمان کی فلاح و بہبود
سے، اللہ ورسول کی معرفت سے اور اخروی تمام نعمتوں سے ہمکنار نہیں ہو پاتے ہیں اور
نہ ان میں دین کی لذت آتی ہے اور نہ ان میں ایمان کی حلاوت، پھر وہ مادی اور نفسیاتی
زندگی گزارنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایشیا میں جو ملک سب سے پہلے مغربی تہذیب کے
سامنے سر نگو ہو جاتے ہیں اور جو تیزی سے مغرب کی پیروی کی طرف جا رہا ہے وہ ہمارا
ہندوستان ہے مغربی ممالک کو چونکہ افرادی وسائل کی ضرورت ہے اور ہندوستان کے
نوجوان ذہانت صلاحیت محنت اور فنی مہارت کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب قبول کرنے کا
مزاج بھی رکھتے ہیں اسی لیے یہاں کے کارکنان ان کے لیے سب سے زیادہ قابل قبول ہیں۔
اس لیے راقم
الحروف ہر اس علاقے کے قائدین اور ذمہ داران سے گزارش کرتا ہے کہ مذکورہ باتوں کو
بغور جائزہ لیا جائے اور ان تجائز پر عمل کیا جائے حتی الامکان اپنے مکاتب کو بدلاجائے
صرف دارالعلوم کا خواب نہ دیکھا جائے۔ ورنہ ہماری یہ نئی نسل غیروں کے یہاں جانے
سے کوئی چیز روک نہیں سکتی ہے ۔آج ہمارے نوجوان نسل کی بہت بری حالت ہے نہ انہیں ایمانیات
سے کچھ معلوم ہے نہ عقائد اہل سنت سے باخبر ہے اور نہ ان میں دین کی کوئی تشخص باقی
رہی ہے۔
محمد معظم قادری
جامعی
8934042348
0 تبصرے