عزیزم شارق اشرفی جامعی
شارق کہاں ہو؟ میں تمہیں آواز دے
رہا ہوں۔ میری آواز تمہارے کانوں سے ٹکرارہی ہے۔ لیکن تم بول نہیں رہے ہو۔ تمہاری آواز کو کیا ہوگیا؟ کیا اب وہ سنائی نہیں دے گی؟ کیا تمہاری وہ صدا اب ہمارے گوش گزار نہیں ہوگی؟ کیوں میرے یقین کو ٹھیس پہنچا رہے ہو؟ بولو نا، میں انتظار کررہاہوں۔ اس انتظار کو دراز نہ کرو۔ شارق کیوں روٹھ گئے؟ کیوں بچھڑ گئے؟ کیوں رخصت ہونا چاہ رہے ہو؟ کچھ تو بولو؟! تمہاری ایک آواز سننے کے لیے نہ جانے کتنے لوگ کھڑے ہیں۔ سب سے پہلے تمہارے دادا کو یہ فکر ستارہی ہے کہ میرا پوتا کیوں خاموش ہے؟ دادی بھی انہیں کے پیچھے کھڑی ہے ۔ والد صاحب کو تسلی تو دو۔ والدہ ماجدہ کا تو بہت برا حال ہے۔ تمہیں تو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ ان کے دل کا قرار تھے۔ ذرا اپنی شریک حیات کی خبر لو۔ ابھی تو ان کے ہاتھ کی مہندی بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ تم نماز پڑھانے کے لیے مسجد گئے۔اور وہ نماز سے فارغ ہو کر تمہارے لیے دستر خوان لگا رہی تھی۔ تم مسجد سے نکل کر حجرے کی طرف جارہے تھے اور وہ تمہیں اپنی یادوں میں بسائے کھانا گرم کررہی تھی ۔ انتظار کر رہی تھی کہ میرا سرتاج آئے گا۔ ہم دونوں دسترخوان پر بیٹھیں گے۔ گفت و شنید ہوگی۔ ہنسی خوشی کے ساتھ رات کا کھانا کھائیں گے۔" بسا آرزو کہ خاک شدہ" شارق کہاں چلے گئے؟ سنا ہو اس راستے پر چل دیے جہاں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ اس منزل کی طرف رواں دواں ہو جہاں سب کو جانا ہے۔ اس ٹھکانے کی طرف کوچ کر گئے جس سے کسی کو مفر نہیں۔
شارق اگر تم جاہی رہے ہو تو جاتے جاتے میری کچھ یادیں ہیں سنتے چلو۔سن 2014 کی بات ہے ۔جامع اشرف میں میری تدریس کا پہلا تھا۔تم جماعت ثالثہ میں تھے۔ میرے پاس تمہاری گھنٹی تھی۔ جس میں ترجمہ قرآن کا درس ہوتا۔تم میرے رو برو ہوتے۔ کبھی تاخیر سے آنے پر تمہیں پھٹکار بھی لگائی جاتی۔حفظ سورت، حل لغات، تحلیل نحوی، ترجمہ اور مختصر تفسیر سے تم محظوظ ہوتے۔ اس طرح یہ سال مکمل ہوا اور رابعہ میں چلے گئے۔ اب منثورات اور معلم الانشاء لے کر میری گھنٹی میں اتے۔ تمہارے پاس دو بڑی کاپی ہوتی۔ ایک منثورات کے لیے تو دوسری معلم الانشاء کے لیے۔ جس میں روزانہ تم اپنا ہوم ورک کرتے اور مجھ سے اس کی اصلاح کراتے۔ پھر تم خامسہ میں پہنچے۔ کلیلہ دمنہ اور معلم الانشاء کی گھنٹی میں تم پابندی سے آتے اور درس کے تقاضے پورے کرتے۔ اس کے بعد سادسہ میں تمہاری ترقی ہوئی۔ اس بار اصول حدیث اور اصول تفسیر کا درس لینے کے لیے تم زانوئے تلمذ طے تے اور اسے اپنے دل و دماغ کا حصہ بناتے۔ یہ سال بھی گزر گیا اور تم ترقی کرتے ہوئے سابعہ میں قدم رکھے۔ تفسیر مدارک کا درس شروع ہوا۔ تم عبارت خوانی کرتے۔ میں ترجمہ اور تشریح کرتا۔ تمہارے ساتھیوں میں سے کوئی سوال کرتا، میں جواب دیتا۔ کبھی تم بھی اشکال پیش کرتے اور میں دفع کرتا۔ پھر تم دورہ حدیث میں پہنچ گئے۔ اس بار تفسیر بیضاوی کی تدریس کا مجھے شرف حاصل ہوا اور تم اس کی ادق عبارتوں کو سمجھنے میں مصروف رہتے۔ اس چار پانچ سال کے عرصہ میں تم نے میری بڑی خدمتیں کیں۔ میری ضروریات کی فکر تمہیں دامنِ گیر ہوتی۔ نمازِ فجر کی ادائیگی اور تلاوتِ کلامِ اللہ کے بعد تم میرے روم پر آتے۔ ناشتہ تیار کرتے اور ترانہ میں شریک ہوئے کے لیے روانہ ہو جاتے۔ دوسری گھنٹی کے بعد وقفہ میں تم مجھے ناشتہ کراتے۔ خود بھی کرتے اور حاضر درس ہوجاتے۔ جمعرات کو مچھلی تو کبھی گوشت اپنے ہاتھوں سے بناکر کھلاتے۔
عزیزم شارق! تمہاری یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ بہت ساری یادیں میرے ذہن کے مختلف گوشوں میں گردش کررہے ہیں۔ جامع اشرف جیسی مرکزی درسگاہ سے تمہاری فراغت ہوئی۔ وہیں تم نے بادہ و خم کے ساغر توڑے۔ اللہ نے تمہیں بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا۔ تم بیک وقت ا چھے حافظ،عمدہ قاری، ذی استعداد عالم و فاضل ہونے کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی واقف تھے۔ سردست تم ضلع بانکا، بہار کی ایک جامع مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مزید برآں ایک ادارہ کے صدر مدرس تھے۔ نہایت ہی سرعت کے ساتھ تمہارے اقبال میں اضافہ ہورہا تھا۔ اللہ عزوجل اسے حسن قبول عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
شارق! اب تم نہیں ہو۔ تمہاری یادیں ہیں۔ تمہیں کیا کہوں؟ اب تک عزیزم سلمہ کہہ رہاتھا۔ اب مرحوم و مغفور کہنا پڑرہا ہے۔
انکم سابقون و انا ان شاءاللہ بکم لاحقون۔
محو غم: محمد قمر عارف
استاذ: دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول، براؤں شریف، سدھارتھ نگر، یوپی۔
حادثہ عظیمہ پر استاذ مکرم کی تعزیت مولیٰ تعالیٰ کا شکر ہے ہمیں اس طرح کے اساتذہ عنایت فرمائے ۔۔۔
0 تبصرے