تعارف نامہ
استاذ الاساتذہ حضرت علامہ ومولانا عبد الخالق اشرفی جامعی
از قلم:محمدعمران اشرفی جامعی
(پونچھ ، جموں کشمیر)
درِ مخدوم سمناں کے قرب وجوار میں مخدومی مشن کا پہلا مینارا ، دین وسنیت کی عظیم ترین دینی درسگاہ جامع اشرف، جو محتاج تعارف نہیں ۔ دنیا بھر میں اس کے پیدا کیے ہوئے قابل رشد فرزندان اپنے چراغ علم سےجہان کو روشن کررہے ہیں ، انھیں میں سے ایک مشہور ومعروف نام استاذ الاساتذہ رئیس المدرسین حضرت علامہ مولانا عبدالخالق اشرفی جامعی دام فیوضہ کا بھی ہے۔
پیدائش
ایک اندازہ کے مطابق 1966ء میں شہر راج محل (جھارکھنڈ) سے جانب جنوب مشہور گاؤں ہنسن ٹولہ (حسن ٹولہ) نرائن پور میں ہوئی۔ جو شہر راج محل سے چار کلو میٹر پر واقع ہے۔ جامع اشرف کے رجسٹر میں تاریخ پیدائش 1968 درج ہے۔
نام ونسب:عبد الخالق بن سلیمان شیخ بن غندر شیخ بن قابل شیخ ملابن جمن ملابن قطب شیخ ملا۔
خاندانی حالات
آپ کے پردادا قابل شیخ ملا اور ان کے آبا واجداد پیر پہاڑ درگاہ شریف کے دامن میں واقع ہیں ، اس زمانہ کے مشہور بستی نور پورگیدر باری کے باشندہ تھے ، دریاکی شکست کی وجہ سے آپ کے پردادا موجودہ بستی میں بودوباش اختیار کیےتھے۔ آپ کے اجداد میں کس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا معلوم نہیں ، مگر آپ کے بقول اندازاً آپ کا خاندان قدیم الاسلام ہے ، آپ کے آبا واجداد دیندار ، تقوی شعار اور فیاض وسخی تھے۔ آپ کے والد بزرگوار مرحوم نیک فطرت تھے طبیعت میں نہایت سادگی تھی۔ چہرہ سنت مصطفے'صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے سجا ہوا تھا۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ یہی حال آپ کے بڑے چچا صوبیدار شیخ کا تھا ۔ آپ ذکر کر رہے تھے کہ آپکے چچا بہت رحم دل اور فیاض تھے۔ آپ کے دروازہ سے کبھی کوئی سائل خالی واپس نہیں ہوا۔ مسجد کے امام منشی عبد الرؤف مرحوم گزر رہے تھے۔ "آپ فرماتے ہیں کہ میرے چچا نے کہا: امام صاحب؛میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمادیں ، امام صاحب ٹھہر گئے اور فرمایا:
"اپنی والدہ کے لیے کچھ صدقہ کرو" ۔ کیا صدقہ کروں ؟
کہا مسجد کے سامنے جو زمین ہے مدرسہ کے لیے وقف کردو ، کہتے ہیں کہ وقف کر دی۔
الحمدللّٰہ ! عرصہ دراز سے مدرسہ زینت العلوم اسی زمین اور میرے دادا کے چچا زاد بھائی حاجی زینت علی مرحوم کی وقف کردہ زمین پر قائم ہے۔اللّٰہ عزوجل ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ۔
تعلیم
آپ فرماتے ہیں کہ
"میں بچپن میں بہت بیمار رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے کافی لاغر و کمزور ہوگیا تھا ، میری حالت کو دیکھ کر اکثر میری والدہ مرحومہ رویا کرتی تھی، میری دادی مرحومہ جو صوم صلوۃ کی نہایت پابند تھی ، ایک دن میرا ہاتھ پکڑ منشی عبدالرؤف کی خدمت میں پہنچی اور بولی یہ بچہ آپ کے سپرد کیا ، منشی مرحوم صاحب سے قاعدہ بغدادی ، قرآن مجید اور اردو کی کتابیں پڑھی ۔اللّٰہ عزوجل کا فضل ہوا دھیرے دھیرے بیماریاں ختم ہو گئیں۔ مدرسہ زینت العلوم اور مدرسہ کلیمیہ امینیہ پھولبڑیا میں فارسی کتابیں اور نحو و صرف کی ابتدائی کتابیں حضرت مولانا ایوب علی مرحوم اور حضرت مولانا سراج الدین اشرفی مرحوم سے پڑھیں ، پھر جامعہ قدیریہ نعیمیہ مراد آباد ، منظر اسلام بریلی شریف اور جامع اشرف کچھوچھہ میں علمی پیاس بجھائی مؤخرالذکر ادارہ سے 1986 میں فارغ التحصیل ہوا"_
اساتذہ کرام
چند ابتدائی اساتذہ کا ذکر اوپر ہو چکا علاویں ازیں حضرت مولانا صدیق صاحب بستی ، حضرت مولانا جمال احمد صاحب مراد آبادی ، حضرت مفتی صالح صاحب بریلوی ، حضرت علامہ سید عارف صاحب بہرائچی ، شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ بہاء المصطفےٰ صاحب و دگر اساتذہ منظر اسلام ، حضرت علامہ مفتی عبد الجلیل نعیمی اشرفی ، حضرت علامہ مفتی غلام مجتبیٰ منظری اشرفی ، حضرت علامہ مفتی محمد آفاق صاحب نقشبندی قنوجی ، حضرت علامہ مفتی زین العابدین شمسی ٹانڈوی ، حضرت مولانا مفتی فیاض عالم اشرفی بھاگل پوری ، خواجہ علم وفن خواجہ مظفر حسین صاحب پورنوی رحمھم اللّٰہ عزوجل ، حضرت علامہ مفتی فیض الرحمن صاحب سہرسہ ، شہزادہ صاحب قانون شریعت حضرت علامہ ہشام الدین صاحب جون پوری ، حضرت علامہ سیف خالد اشرفی صاحب بھاگل پوری و دگر اساتذہ جامع اشرف۔
شرف بیعت وخلافت
تاجدار اہل سنت حضرت علامہ مفتی سید الشاہ محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی سرکار کلاں علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل ہے۔ پیرو مرشد اور ان کے شہزادے حضرت شیخ اعظم علامہ الحاج سید شاہ محمد اظہار اشرف علیھما الرحمہ و دگر سلاسل کے بزرگوں سے کافی قربت حاصل تھی اور ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ مجھےکبھی بھی کسی سے خلافت حاصل کرنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ حضور پیرو مرشد نے ایک مرتبہ خلافت عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ مگر میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ حضور میں اس لائق نہیں۔ 2011ء میں حضرت قائد ملت سفیرامن ومحبت علامہ سید شاہ محمد محمود اشرف اشرفی الجیلانی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ اشرفیہ حسنیہ سرکار کلاں اور شیخ الاسلام حضرت علامہ الحاج الشاہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی نے خلافت عطا فرمائی بطور تبرک رکھ لیا ہوں مگر اجلاس وغیرہ کے اشتہار میں اگر کوئی خلیفہ فلاں لکھتا ہے۔تو ناگوار گزرتا ہے۔
عقد مسنون
آپ کے گاؤں سے متصل مشہور اور کثیر آباد بستی "مان سنگھا" کے جناب ابصار علی مرحوم کی صاحبزادی بی بی شمس النہار صاحبہ کے ساتھ 1988ءمیں عقد مسنون ہوا۔
الحمدللہ ! صوم و صلوٰۃ اور تلاوت قرآن کریم کی پابند ہیں ، پڑوس کی عورتیں اس کے پاس آکر نماز پڑھنا سیکھتی ہیں ، ان سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں تولد ہوئے۔ دو لڑکے فوت ہو چکے ہیں ، ایک لڑکا باحیات ہے ، اور سب کی شادی ہو چکی ہے۔ صرف چھوٹی لڑکی جو مدرسہ بی بی سلطانہ للبنات بسکھاری امبیڈکر نگر پوپی میں کچھ سال زیر تعلیم رہی کرونا وائرس کی وجہ سے اپنے ہی علاقے میں جامعہ جواری الفاطمہ للبنات میں زیر تعلیم ہے۔
تدریسی مراحل
دورہ حدیث کی تکمیل کے بعد ماہ شعبان المعظم میں تعطیل کلاں کے وقت بانی جامع اشرف حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں تم کوبحثیت مدرس جامع اشرف کے لیے منتخب کر دیا ھوں اور قبض الوصولی میں نام بھی درج کر دیا ھے۔ رمضان المبارک کے بعد جامع اشرف آجانا۔
آپ ذکر کرتے ہیں کہ میں کچھ مجبوری کی بنا پر حاضر نہیں ہو سکا تو آپ نے خط کے ذریعے فرمایا اگر نہیں آسکتے تولکھ دو تاکہ آئند میں تم سے کوئی امید نہ رکھوں اور اگر ضرورت محسوس کرتے ہوتو فوراً دارالعلوم اھل سنت اشرفیہ مالیگاؤں روانہ ہوجاؤ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں فوراً رختِ سفر باندھا اور وہاں پہنچ گیا۔1987ء سے 1992ء تک تدریس و افتاکی خدمت انجام دیا۔ 04/ دسمبر 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پورے ملک میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی، ادھر آپ کی والدہ بھی مسلسل بیمار رہنے لگی بایں وجہ آپ نےعزم مصمم کر لیا کہ جب تک والدہ باحیات ہے باہر نہیں جاؤں گا۔
چناں چہ شعبان المعظم میں گھر پہنچ کر استعفیٰ نامہ بھیج دیا چند مہینے مدرسہ اشرفیہ دیانت العلوم بیربنہ میں رہے۔ کمیٹی کی آپس میں رشہ کشی دیکھ کر دل اُچاٹ ہوگیا اور وہاں استعفیٰ دے کر مدرسہ مدینۃ العلوم حاجی نوابدی ٹولہ تشریف لے گیے ۔ تقریباً ڈیڑھ سال یہاں رہے ، یہاں کی حالت بھی بہت زیادہ ابتر تھی دل برداشتہ ہو کر اس کو خیر باد کہا اور از ابتدائیہ تا ثالثہ چالیس طلبہ کو لے کر درمیانِ سال مدرسہ کلیمیہ امینیہ لکھی پور تشریف لائے ، اس مدرسہ کی زمین آپ کے قبیلہ کے ایک شخص رحمت علی مرحوم جو آپ کے سگے پھوپھا بھی تھے وقف کیا تھا۔ یہ مدرسہ جھارکھنڈ بورڈ سے ملحق ہو چکا تھا رحمت علی کے چھوٹے بھائی حاجی امین صاحب مرحوم مدرسہ کے صدر تھے انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور دو کمرے درس نظامی کے لیے عارضی طور پر دے دیے ، یہیں سے علاقہ راج محل میں ایک عظیم الشان ادارہ قائم کرنے کا عزم مصمم کیا اور تحریک شروع کی۔ بقول آپ کے کہ بلا معاوضہ تقریباً ڈیڑھ سال تک درس دیتے رہے۔ اور لوگوں کو بھی ہموار کرتے رہے ، مدرسہ کلیمیہ امینیہ ہی کے بازوں میں حاجی آمین صاحب مرحوم کی مزید زمین تھی ان کو راضی کر لیا۔
چناں چہ 7/ کٹھا زمین مدرسہ کے لیے وقف کر دیا۔اور 1996ء میں بدست تاج العرفاء سید شاہ سرمد احمد کلیمی چشتی علیہ الرحمہ اس کی بنیاد رکھی گئی۔ حضرت نے خود اس کا نام "گلشن کلیمی" تجویز فرمایا ، گلشن کلیمی بہت جلد پروان چڑھا۔ اس کے لیے محنت ومشقت جھیلنی پڑی باد مخالف کا مقابلہ کرنا پڑا،طعن و تشنیع کے تیر چلے ، مگر برداشت کرتے رہے ، سب کو دعاؤں سے بھی نوازتے رہے، پھر وہ وقت آیا کہ دھیرے دھیرے مخالف بھی موافق بن گئے ۔ اور بالآخر 2009ء میں مدرسہ کی دو منزلہ عمارت۔مستقل آمدنی کے لئے 24/ دکانیں مکمل ہو گئیں۔اور معیاری تعلیم بھی دورہ حدیث تک پہنچ گئی۔۔ آپ فرمارہے تھے:
" کہ مجھےحضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ مسلسل جامع اشرف میں تدریسی خدمات انجام دینے کی دعوت دیتے رہے۔مگر گلشن کلیمی کی وجہ سے ٹالتا رہا۔ 2011ء میں بضد ہوگئے،کہ تم کو جامع اشرف آنا ہی پڑے گا۔ اب بہت ہو چکا ہے۔اور مجھے آنا ہی پڑا"۔ چند مہینے بعد نومبر 2011ء29/ ربیع الاول شریف کو آپ (شیخ اعظم رحمۃ اللہ علیہ)خالق حقیقی سے بھی جا ملے ۔اس وقت سے اب تک جامع اشرف میں ہیں۔
اللہ پاک عمرِ خضر عطا کرے۔
معروف رفقاء درس ۔
حضرت علامہ مفتی عبد الرحیم اشرفی دیناج پوری ، حضرت علامہ عیسیٰ رضوی صاحب دیناج پوری ، حضرت علامہ الحاج الشاہ سید راشد مکی میاں اشرفی الجیلانی کچھوچھہ مقدسہ ، حضرت مولانا جمال الرافع ، حضرت مولانا ممنون حسین صدر المدرسین مدرسہ اشرفیہ فتح پور بھاگلپور ، حضرت مولانا غلام وارث اشرفی مدرس مدرسہ شاہ جنگی پیر بھاگل پور ، حضرت علامہ غلام غوث اشرفی جامعی شیخ الحدیث مدرسہ امیر العلوم سمنانیہ کچھوچھہ مقدسہ۔
چند معروف تلامذہ۔
مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی صدر المدرسین مدرسہ منظر اسلام التفات گنج امبیڈکر نگر ، مفتی محمد فاروق اشرفی صدر المدرسین مدرسہ شہبازیہ بھاگلپور ، مفتی نوح عالم اشرفی صدر المدرسین مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم ڈھاکہ بنگلہ دیش ، مفتی ضیاء الحق اشرفی پران پور راج محل ، مفتی نثار احمد اشرفی جامعی ، مفتی شفیع عالم اشرفی جامعی صدر المدرسین دارالعلوم مخدوم العالم ردولی
شریف ، مفتی حفیظ الرحمن مصباحی مدرس بھونڈی مہاراشٹر ، مولوی عبد الستار اشرفی صدر مدرس جمالیہ غفوریہ نالندہ بہار ، مولوی عبد العزیز کلیمی مدرس مدرسہ فصیحیہ خالتی پور نالندہ بنگال ، مولوی انوار السلام مدرسہ غریب نواز شن دریا پور ، مالدہ بنگال ، مفتی معروف احمد برکاتی جامعی صدر مفتی راجوری کشمیر ، مفتی شمس الزماں خان صابری جامعی مفتی معروف حسین اشرفی کشمیر ، مفتی محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی ، مفتی نورالحسن جامعی جھارکھنڈ اور راقم
الحروف۔
0 تبصرے