بن مانگے دینے والا"رب" ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ۔ ہمارا اللہ تعالیٰ سے تخلیق کا تعلق ہے۔ اس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور اس تخلیق کی بنیاد محبت ہے۔دنیا کی کوئی بھی چیز اس وقت تیار ہوتی ہے جب اس میں محبت ڈالی جاتی ہے وہ چاہے مالک ِ کل کائنات کا بنایا ہوا شاہکارانسان ہو یا کسی بچے کی بنائی ہوئی کا غذ پر تصویر۔ہر چیز کی تخلیق محبت سے ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں بے انتہا محبت سے تخلیق کیا ہے وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ قرآن مجید کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ کے دو تعارف رحمان اور رحیم ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آخر یہ دونوں نام شروع میں ہی کیوں ہیں۔ بعض مفسرین کرام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں الفاظ کے ماخذ میں ’’رَحَم‘‘ آتا ہے اور ’’رحمِ مادر‘‘ یہ وہ مقام ہے جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوتی ہے۔ جب یہاں پر انسان ہوتا ہے تو اس کو تقاضے اور تمنا کے بغیر ملتا ہے۔ جب ہماری تخلیق شروع ہوتی ہے توہمیں ہماری ضرورتوں کے مطابق رزق ملنا شروع ہو جاتا ہے اور ہماری نشوو نما کے اسبا ب بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ہماری زبان پر الفاظ آ نے سے پہلے ہ
وہ ہمیں رزق عطا کرتا اور ہما ری تمنا کے بغیر ہماری ضروریات پوری کرتا ہے۔ماں کو ہم سے بہت محبت ہوتی ہے اور ہمارے رونے کا ہر سبب جانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے اظہار کے لیے ماں کی محبت کا حوالہ دے کر فرما دیا کہ’’ میں ستر ماؤں سے زیادہ پیارکرنے والا ہوں۔‘‘ کہاں ایک ماں کا پیا ر نہیں سنبھالا جاتا اور کہاں ستر ماؤں کا پیار، ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والاوہ ’’ رب‘‘ کیسے چاہے گا کہ اس کا بندہ بھٹک جائے ، پستیوں میں چلا جائے یا پھر گمراہ ہو جائے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ بندہ خود اپنے آپ کو گمراہ کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ میرا بندہ میری طرف پلٹ آئے تا کہ میں اس کو ہدایت
دوں۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کے لیے ضرور ی ہے کہ دین کو سطحی حدتک نہیں بلکہ پوری طرح سمجھا اور اس پر عمل کیا جائے۔ ہم جو کچھ کر تے ہیں ا س کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی رضا ہونی چاہیے۔ اگر ہماری عبادت ، سجدے ، ہمارا صوم وصلوٰۃاورحج و عمرے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہیں ہیں تو پھر یہ عبادات کسی کام کی نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنی محبت کی تجدید نہیں کرتے ہم اس ذات کو بھول جاتے ہیں جو بن مانگے عطا کرتی ہے۔ جب ہم بھول جاتے ہیں تو پھرعبادات کی روٹین تو ہوتی ہے لیکن ان میں نیت کی کمی رہ جاتی ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے پوچھا کہ ’’کیسے پتا چلے گا کہ ہمارا اللہ ہم سے راضی ہے‘‘۔انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا: ’’جتنا تم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو اتنا اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے‘‘۔
0 تبصرے