حضور سرکار کلاں ایک عہد ساز شخصیت
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تمام حمد و ثنا ثابت ہے اس ذات باری تعالی کے لیے جس نے لفظ کن سے اس کائنات کو عدم سے وجود بخشا ،زمین کو منتشر اور آسمان کو نزول رزق کا مبدا بنایا ۔ جس نے شمس کو ضیا اور قمر کو نور بخشا اور لا متناہی و لا تعداد درود و سلام نازل ہو صنعت الٰہی کے اس بے مثال مصنوع پر جس نے اپنی ضیا پاشیوں سے تاریک دنیا کو منور فرمایا ، اور سلام ہو آپ کے آل و اصحاب پر
عظیم، بلند، نمایاں اور باکمال ہستیوں و شخصیتوں کے حالات کو نوشتہ تحریر میں لانا یہ کوئی جدید طریقہ کار نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ جب کوئی عہد ساز و انقلاب آفریں شخصیت زمانے میں پیدا ہوتی ہے تو لوگ ان کے حالات،عادات و اطوار، افعال و کردار کو تاریخ کے وسیع وعریض صفحات میں محفوظ کر لیتے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے مابین تاریخ وسیر کی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، یہ کہا جاے تو بےجا نہیں ہوگا کہ اگر کوئی ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہے تو عمر نوح کم پڑ جاے لیکن ذہن کے حاشیے میں اک سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر بلند ترین شخصیتوں کے حالات کو نوشتہ تحریر میں لانے اور تاریخ کے وسیع اوراق میں رقم کرنے کا مقصد و منشا کیا ہے؟ کیا اسے صرف باعث فخر و شرف سمجھیں؟ یا پھر کچھ دیر کے لیے اطمینان قلب اور تسکین نفس کا سامان بنائیں ؟ ہم لوگ ایک دوسرے کو سننے اور سنانے میں ہی رہ جائیں؟ یا پھر اسے محض بطور قصہ و کہانی ، افسانہ و داستان بیان کرتے چلے جائیں؟۔۔۔۔۔ ایسا نہیں کرنا ہے جناب بلکہ اسے بطور نصیحت قبول کرکے عملی جامہ پہنانا ہے، اپنی ذات کو علم و عمل کی زیور سے مزین و آراستہ کرنا ہے، روز مرہ کی زندگی میں در پیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہے، اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز اور عروج و زوال کے راہوں کو ہموار کرنا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب کوئی قوم اپنے اسلاف کی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہے تو پھر بہت جلد زوال پذیر ہوجاتی ہے،بہر حال اللہ عزوجل ہر دور میں ایسی عظیم و عہد ساز ہستیوں کو بھیجتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج چودیں صدی گزر جانے کے بعد بھی اسلام اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ ہمارے اور آپ کے مابین جلوہ فگن ہے۔علما و مصلحین کا یہ وہ گروہ ہے۔ جس نے کفر و شرک،بدعت و ضلالت، جہالت و گمرہی کی طاغوتی توتوں کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے، یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے کارہاے نمایاں سر انجام دے کر،اپنے اخلاق، افعال و کردار کے ذریعہ اسلام کو ایک مجسمہ کی صورت میں پیش کیا، اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اللہ کے ان مقدس بندوں کی صورت میں دیکھ سکتا ہے۔
میں نے آج ایسی بلند پایہ ہستی پر خامہ فرسائی و طبع آزمائی کی جرأت و جسارت کی ہے جنہیں دنیا مخدوم المشائخ پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ و مولانا مفتی سید شاہ محمد مختار اشرف اشرفی الجیلانی المعروف بہ سرکار کلاں کچھوچھوی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے، حضرت کی ذات محتاج تعارف نہیں ہے 24جمادی الثانی 1333ھ بمطابق 12 مئی 1914ء کو شکم مادر سے آغوشِ سے مادر۔میں جلوہ گر ہوے،آپ کے جد امجد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے پیشین گوئی کی تھی کہ میرا پوتا مادر زاد ولی ہوگا جس کے متعلق ایسی پیشین گوئی ہو اس کو ہم اور آپ کیا جان سکتے ہیں، آپ کی ہمہ جہت شخصیت کو احاطہ تحریر میں نہیں لایا جاسکتا ، بڑے مایہ ناز عالم دین صاحب کشف و کرامات، اور ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے ،علماے کرام کے الجھے ہوئے مسٔلہ کو منٹوں میں حل کردیا کرتے تھے اور یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ آپ ولی کامل، اور مرشد برحق تھے، آپ نہایت ہی کم سخن و کم گو تھے، لایعنی باتوں سے احتیاط برتتے، نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی برتتے شریعت و طریقت ، صبر و تحمل، حلم و بردباری، جود و سخا،مساوات و رواداری ، عفو و درگزر، تواضع و انکساری کے پیکر تھے، علم و فضل میں نابغہ روزگار شخصیت اور عبادت و ریاضت، زہد و ورع میں فقید المثال و بےنظیر تھے۔چھ سال کی عمر میں اپنے جد امجد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اور جب آپ خلافت و مسند سجادگی جیسی عظیم منصب کی باگ ڈور سنبھالتے اور سامعین و مریدین کے مابین جلوہ آرا ہوتے تو آپ کی نگاہیں نمازوں کے تئیں گھڑی پر مرکوز رہتی مختصر یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ کی پاسداری کا التزام و انصرام اس قدر کیا کرتے تھے کہ مرض الوفات میں جبکہ کمزوری اور ضعف و نقاہت کا عالم یہ تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت ہے اور نہ پاؤں پر کھڑے ہونے کی طاقت و قوت اس کے باوجود جب نماز کا وقت ہو جاتا تو خادم سے فرماتے کہ مجھے مصلیٰ پر کھڑا کردو، آپ کی نقاہت اور شدت تکلیف کے پیشِ نظر کبھی کہتا کہ حضور آپ کے لیے تو رخصت ہےکہ آپ بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں، اس پر حضرت فرماتے: "ہاں ہاں بھئی مجھے بھی مسٔلہ معلوم ہے مگر جو کہہ رہا ہوں وہ تم کرو۔ اسی طریقے سے جب ماہ رمضان المبارک آتا تو آپ پورا ماہ نماز تراویح باجماعت ادا کرتے ،
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر و باہر ہے کہ آپ نے جو رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کا گرانقدر خدمات کا فریضہ سر انجام دیا ، یقیناً وہ ناقابل فراموش ہے۔
آپ کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع و عریض ہے،
آپ نے ہزاروں گم گشتگان راہ کو بدعت و ضلالت اور جہالت و گمرہی کے راستے سے نکال کر ایمان کی دولت سے سرفراز فرماکر حلقہ اسلام میں داخل فرمایا، ہمہ وقت دین متین کی ترویج و اشاعت،اور سر بلندی کے تئیں کوشاں رہتے، ساتھ ساتھ جود و نوال میں بھی آپ یکتائے روزگار تھے، حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ، غریبوں،مسکینوں کی امداد و تعاون فرماتے، امداد اور جود و سخا کا طریقہ کار سنت نبوی کے مطابق ہوا کرتا تھا ، گویا کہ آپ اس حدیث کے مصداق تھے کہ راہ حق میں داہنے ہاتھ سے اس طرح خرچ کرو کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا وصال ہوتا ہے ہزاروں عشاق زار و قطار رو رو کر کہنے لگتے کہ حضرت ہمارے گھر میں سال بھر کا خرچ دیا کرتے تھے، کوئی کہتا ہماری بیٹی کی شادی میں حضرت نے خرچ چلایا، ۔آپ کی پوری زندگی اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ صادقہ سے سرشار تھی،۔ عادتاً لوگ مسند پہ ٹیک لگا کر چاے پان کھا پی لیتے ہیں تاہم مخدوم المشائخ علیہ الرحمہ کو ایسا کرتے ہوے نہیں دیکھا کیا گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ہوں۔ اسی طریقے سے آپ لوگوں سے خندہ پیشانی و خوش روئی کے ساتھ کلام فرماتے،اس حدیث پاک کے پیشِ نظر کہ تمہارا مسکرا کر کلام کرنا بھی صدقہ ہے،کار خیر و حسن عمل کی ترغیب دلانا اور منہیات سے باز رہنے کا حکم دینا بھی صدقہ ہے، آپ کی ذات کو جس زاویے سے بھی دیکھا جاے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہک آتی ہے، المختصر آپ کی پوری زندگی احاطہ سنت نبوی ہی میں گزری۔
خداے وحدہ نے آپ کو حسن سیرت کے ساتھ حسن صورت سے بھی نوازا تھا، آپ کی ذات قدرت کا حسین شاہکار تھی ، نورانی چہرا، جھکی ہوئی نگاہیں، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لال ہونٹ ، بلند قد ،بارعب چہرا,سرمگیں و چمکدار آنکھیں، جب کوئی ایک بار دیکھتا تو وہ آپ کا اسیر و گرویدہ ہوجاتا، زیارت سے دلی سرور و طمانیت حاصل ہوتی، یہی وجہ ہے کہ آپ کے ذریعہ لوگ لاکھوں کی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہوے مفتی رضاء الحق اشرفی مصباحی صاحب اپنی کتاب سرکارکلاں بحیثیت مرشد کامل میں رقمطراز ہیں: مرشد کامل وہ ہے جس کی جانب بغیر کسی ترغیب کے خلق خدا کا میلان ہو اور جسے دیکھ کر خدایاد آجاۓ ، دل میں خشیت الٰہی پیدا ہو جائے ۔ یہ تعریف حضرت کی ذات پر پورے طور پر صادق آ رہی ہے کیوں کہ اسلامیان عالم خصوصا مسلمانان ہند و پاک ، بنگلا دیش اور سری لنکا میں ان کو محبو بیت اور مرجعیت حاصل تھی اور انکی طرف خلق خدا کا رجحان و میلان جس عظیم پیمانہ پر تھا وہ کم شخصیتوں کو ہی نصیب ہوا ۔ وہ جہاں جاتے ان کا نورانی چہرہ مرکز قلب ونظر بن جاتا ان کی باخدا اور ظاہر وباطن کی یکسانیت سے معمور زندگی لوگوں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچ لیتی اور دل خشیت الہی کے نور سے جگمگا اٹھتے ۔
آپ صدر الافاضل حضرت علامہ و مولانا مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللّٰہ کے مایہ ناز تلمیذ رشید تھے، بہت سارے علوم پر کامل طور پر عبور و دسترس حاصل تھی
حضرت کی ذہانت و فطانت اور باریک بینی و باریک نظری کا سبھوں نے برملا اعتراف کیا ہے، حضرت کی فقہی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب جامع اشرف درگاہ کچھوچھہ مقدسہ میں جلیل القدر عالم دین و مفتی حضرت علامہ و مولانا مفتی عبد الجلیل پورنوی رحمتہ اللہ علیہ دارالافتا کی باگ ڈور سنبھالتے اور کسی استفتا کا جواب عنایت فرماتے، تو سب سے پہلے آپ تصدیق کیلئے حضور مخدوم المشائخ کی بارگاہ میں پیش کرتے تو حضرت سامعین و مریدوں کے سامنے استفتا کو بآواز بلند پڑھتے اور پہلے اپنا جواب ارشاد فرماتے، پھر مفتی صاحب کے جواب کو پڑھتے تو ان کا جواب آپ کے موافق ہوا کرتا تھا، پھر شک و شبہ کا ازالہ کے تئیں کتاب دیکھ لیا کرتے پھر تصدیق کر کے مہر لگا دیتے تھے، تاہم اگر کبھی آپ کی راے سے مفتی صاحب کا فتویٰ مختلف ہوتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ دارالافتا جامع اشرف تشریف لے آتے اور مفتی صاحب سے تبادلہ خیال فرماتے،کبھی بحث و تمحیص ہوتی پھر ایک نتیجہ پر دونوں متفق ہوتے تب آپ رحمۃاللہ علیہ دستخط و مہر فرماتے۔ جس طرح فقہاء فرماتے ہیں ”من لم یعرف حال زمانه فهوا جاهل“ جو مفتی اپنے زمانے کے حال سے واقف نہ ہو وہ جاہل ہے) اسی طرح استفتاء میں مستفتی کے مخفی ارادوں اور اس کے پنہاں اغراض ومقاصد سے بھی آگاہ ہونا بہت ضروری ہے ورنہ مفتی خود بھی گمراہی کے قعر عمیق میں گرےگا اور دوسروں کو بھی گراے گا، حضرت کی نظر فقہی قواعد و جزئیات کو حاوی اور حالات زمانہ سے پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ نہایت ہی سادہ،اور واضح انداز میں شرعی مصادر و مراجع کی روشنی میں سائل کو مطمئن کرتے تھے
ایک مرتبہ آپ نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا خانقاہوں میں عشق ملتا ہے، اور مدارس میں علم ، علم اور عشق دونوں کے شروع میں”عین“ ہے جس کے دونوں عین یعنی دو آنکھیں ہیں وہ کامل ہے اور اگر علم ہے عشق نہیں تو ایک آنکھ والا ہے اور اس کے بر عکس بھی ایک آنکھ والا ہے۔ آپ اس کلام سے یہ روشناس کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے پاس شریعت و طریقت دونوں ہوں وہ کامل ہے۔ یہ آپ کی باریک بینی پر دال ہے،سبحان اللہ آپ نے اس پر پیچ مسٔلے کو کیا شائستہ انداز میں سمجھادیا، یہ وہ فہم و فراست جو اللہ عزوجل اپنے فقیہ بندوں کو عطا فرماتا ہے،
اسی طریقے سے قوم ثمود و قوم عاد کو پہچاننے کا نہایت ہی عمدہ و آسان طریقہ آپ نے بتایا کہ قوم ثمود کس نبی کی قوم ہے اور قوم عاد کس نبی کی قوم ہے ؟
تو آپ نے فرمایا کہ قوم ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے کیونکہ جس طرح صالح میں چار حروف ہیں اسی طرح ثمود میں بھی چار حروف ہیں۔ اور قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے کیونکہ جس ہود میں تین حروف ہیں اسی طرح عاد میں بھی تین حروف ہیں، کیا عمدہ اور واضح انداز میں بیان فرمایا آپ نے ، آپ کے اوصاف و کمالات مجھ جیسا کم علم بیاں نہیں کرسکتا۔
۹ رجب المرجب 1417ھ بمطابق 1996ء جمعرات کو اہل سنت والجماعت کا یہ چمکتا،دمکتا آفتاب ہمیشہ کے لیے اوجھل و روپوش ہوگیا۔
حضرت کی ذات ستودہ صفات کی ضیاباریوں سے از مشرق تا مغرب اور شمال تا جنوب سلسلۂ اشرفیہ کی روشنی پھیلی ہے، اللہ مجدہ الکریم مخدوم المشائخ سرکار کلاں رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے!
نتیجۂ فکر : رھبر رشیدی جامعی عفی عنہ
0 تبصرے