احوال سلطان الہندخواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ
العناصر
(1) *تمہیدی کلمات*(2) *نام ونسب* (3) *ولادت باسعادت* (4) *عہد طفولیت*(5) *تعلیم* (6) *ایک مرد کامل سے ملاقات* (7) *شیوخ*(8) *سایۂ یتیمی (9)*سیر و سیاحت* (10) *بیعت وخلافت* (11) *زیارت حرمین شریفین* (12) *بشارت ہند* (13) *مدینہ سے اجمیر تک*(14) *دعوت و تبلیغ*(15) *ازواج واولاد*(16) *وصال پر ملال*(17) *خلفاء*(18) *تصنیفات*(19) خلاصۂ مضمون*
تمہیدی کلمات
تمام تعریفیں ثابت ہیں اس معبود حقیقی کے لئےجس نے لفظ کن سے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی اور لقد کرمنا بنی آدم فرماکر انسان کو عزت و کرامت کا تاج زریں عطاکیا۔
اور درودلامحدود ہواس محسن انسانیت پرجس نے مظلوموں کی خبرگیری و فریادرسی کی ،بیواؤں اور غریبوں کی پشت پناہی کی۔
اور لاکھوں سلام ہو ان نفوس قدسیہ پر جنہوں نے اسلام کے خاطر اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کردیا۔
انہیں بزرگ ہستی میں سے سے ساتویں صدی کے افق پر طلوع ہونے والاعلم و فضل اور رشد و ہدایت کا وہ روشن ستارہ جس نے نہ جانے کتنے تاریک دلوں کو جگمگایا، کتنے ذروں کو چمکایا،اور کتنے گم گشتگان راہ کو راہ یاب کیا۔
جسے آج دنیا یا امام ارباب طریقت، پیشوائے اصحاب حقیقت، قطب الاقطاب، سید الاتقیا، عطائے رسول، سلطان الہند خواجہ غریب نواز چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔
نام ونسب
آپ نجیب الطرفین سید تھے والدہ ماجدہ کی جانب سے حسنی اور والدماجد کی جانب سے حسینی سید تھے تھے۔آپ کا سلسلہ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔
آپ کے والد ماجد خواجہ غیاث الدین عالم وفاضل اور صاحب کمال بزرگ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور وہ بھی بڑی نیک دل عابدہ زاہدہ خاتون تھیں۔ والدین کریمین نے آپ کا نام معین الدین رکھا اور پیار و شفقت سے اپنے اس لخت جگر کو حسن کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
ولادت باسعادت
آپ 14 رجب المرجب 537ھ بمطابق گیارہ سو 42 عیسوی کو دشنبہ(پیر)کےدن بوقت صبح صادق خطۂ سجستان کے قصبہ سنجر میں کتم عدم سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔
عہدطفولیت
آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی۔
آپ کے والدین نے بہت ہی نازونعمت کے ساتھ آپ کی پرورش کی اور آپ کو پاکیزہ اخلاق و کردار کا حامل بنایا،اس لیے آپ عام بچوں کی طرح آشناۓ لہو لعیب نہ تھے، اچھے اور نیک کاموں کی طرف آپ کا میلان تھا،طبیعت سنجیدہ تھی، اپنے ہم عمر بچوں کو اپنے گھر بلا کر انہیں کھلا پلا کر آپ بہت خوش ہوا کرتے تھے تھے، پیشانی مبارک پر لمعۂ نوراور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ ایک غیر معمولی شخصیت بننے والے ہیں۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیے پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی خدا داد ذہانت و ذکاوت کی وجہ سے انتہائی قلیل مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کر لیا۔
یتیمی
حضرت خواجہ غریب نواز گیارہ برس کے عمر تک نہا یت ہی ناز ونعم اور لاڈپیار میں پروان چڑھتے رہے۔ جب آپ کی عمر شریف بارہ یا پندرہ برس کی ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار سید غیاث الدین علیہ الرحمہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ اس طرح آپ سن شعوری کو پہنچنے سے پہلے ہی سایہ پدری سے محروم ہوگئے۔ چنانچہ آپ کی باہمت والدہ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو تسلی دی اور باپ کی کمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔
لیکن یتیمی کا یہ داغ ابھی ہرا ہی تھا کہ کچھ عرصہ بعد آپ کی والدہ ماجدہ بھی آپ کو داغ مفارقت دے گئی۔اس حیرانی و پریشانی کے عالم میں خود آپ کو اپنے حالات و معاملات کا ذمہ دار و نگراں بننا پڑا،صبر و رضا کے ساتھ آپ نے یہ ایام گزارنے شروع کئے اور والد کے ترکہ سے ملے ہوئے ایک باغ اور پن چکی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا،خود ہی باغ کی نگہبانی کرتے اوراس کے درختوں کی آبیاری کرتے اور آسودہ زندگی گذارنے لگے۔
مگر قدرت نے آپ کو انسانوں کی تربیت اور باغ ہستی کو صلاح و تقوی کے نور سے زینت بخشنے کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ یکایک آپ کی دل کی دنیا بدلنےوالاواقعہ رونما ہوا۔
ایک مردے کامل سے ملاقات
544 ہجری کا واقعہ ہے کہ آپ اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے یکا یک اشارۂ غیبی سے ایک بزرگ ابراہیم قندوزی باغ کے اندر تشریف لے آئےجنہیں دیکھتے ہی آپ ادب و نیازمندی کے ساتھ ایک سایہ دار درخت کے نیچے بٹھایااور عزت و تکریم کے ساتھ انگور کا خوشہ پیش کر کے ان کے سامنے با ادب بیٹھ گۓ۔
آپ کی اس تواضع و انکساری سے حضرت ابراہیم قندوزی علیہ الرحمہ بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے بغل سے کھلی نکالی اور اسے چبا کر آپ کے منہ میں ڈال دیا اسے کھانا تھا کہ آپ کی دل کی دنیا بدل گئی اور سینہ انوار الہی سے معمور ہو گیا۔طبیعت علایٔق دنیاسے متنفر ہو گئ۔اور پھر اپنا گھر بار اور باغ وپن چکی سب کچھ دو چار دن کے اندر فروخت کرکے درویشوں اور ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کرکے سمرقندوبخارا کی راہ لی۔
اساتذہ
سمرقند اور بخارا میں544 ہجری مطابق 1150ء سے 550ھ مطابق 1155ء تک مولاناحسام الدین بخاری اور مولانا شیخ شرف الدین صاحبان جیسے جلیل القدر علماء سے 5سال تک علوم ظاہری و باطنی سے فیضیاب ہوتے رہے۔
سیروسیاحت
آپ نے اہل اللہ اور بلند ہمت بزرگوں کی طرح 550 ہجری مطابق1155ءسے 561ہجری مطابق 1165ء تک زمین کے مختلف حصوں کی سیاحت کرتے ہوئے بغداد،حرمین شریفین، نشاپور، شام، کرمان، ہمدان، تبریز، استرآباد، خرقان، سمرقند، بخارا،ہرات، سبزوار،ملتان، لاہور،غزنی، غیرہ کا سفر کیا دوران سیاحت صدہا اولیاء اللہ اور اکابرامت ،علماء صلحاء، کی زیارت کی اور ان بزرگوں کے فیض صحبت سے خوب خوب استفادہ کیا۔
بیعت وخلافت
حضرت خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ جب اپنے سیروسیاحت کے دوران 552 ہجری میں علاقہ نشاپور کے قصبہ ہارون میں پہنچے تو وہاں عارف باللہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور وہ اڑھائ سال تک ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔
زیارت حرمین شریفین
563ھ مطابق 1168ء میں اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کے لئے حرمین شریفین پہنچے۔
آپ زیارت وطواف خانہ کعبہ کا ذکر کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں کہ پیر و مرشد نے میرا ہاتھ پکڑا اور حق تعالی کے سپرد کیا اور میرے بارے میں رب تبارک و تعالیٰ سے مناجات کی،تو ندا آئی ہم نے معین الدین کو قبول کیا یا۔
حج بیت اللہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مرشد کے ہمراہ آپ مدینہ منورہ پہنچے اور بارگاہ رسالت مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری دی۔ مرشد نے حکم دیا سلام کرو۔ آپ نے بارگاہ رسالت مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں سلام عرض کیا، نصیبہ کی ارجمندی نے ساتھ دیا اور آواز آئی وعلیکم السلام یہ آواز سن کر مرشد نے فرط مسرت سے ارشاد فرمایا اے معین اب تو درجہ کمال کو پہنچ گیا۔
بشارت ہند
پھر آپ مسجدےقبا پہنچ کر سجدہ شکر ادا کیا عبادت وریاضت کی اور وہاں سے دو بارہ مسجد نبوی تشریف لائے تو دربار رسالت سے آپ کو یہ بشارت ملی لی۔
اے معین الدین!تو میرے دین کا معین ہے جا میں نے تجھے ولایت ہندوستان عطا کی وہاں کفر و ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے ظلمت کفر دور ہوگی اور اسلام رونق پزیر ہو گا۔
مدینہ سے اجمیر تک
خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ مدینہ طیبہ سے بغداد شریف، چشت شریف ہوتے ہوئے ہرات سے سبزوار، ملتان اور پھر لاہور پہنچے اور وہاں سے دہلی ہوتے ہوئے 586ھ مطابق 1190 عیسوی میں اجمیر پہنچے اس وقت اجمیر کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا۔جو ہندوستان کے ایک وسیع و عریض خطہ کا طاقتور حکمران تھا اجمیر اس کا پائے تخت تھا اور دہلی بھی اس کے عمل داری میں تھی۔
دعوت وتبلیغ
اجمیر پہنچتےہی آپ کے جائے قیام کے متعلق راجہ کے اونٹوں کی بیٹھنے کی جگہ کا واقعہ پیش آیا۔ جہاں پہلے ہی دن لوگ آپ کی ذات بابرکات سے خوب متاثر ہوئے اور اہل اجمیر جو بت پرستی میں ڈوبے ہوئے تھے جب اس بوریہ نشیں فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔
وصال پرملال
بالآخرعلم وعرفاں، رشدوہدایت اور اخلاق و مروت کایہ روشن ستارہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے رجب المرجب 633ھ مطابق 16 مارچ 236ء پیر کی رات اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کر گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ن۔
وصال کے وقت آپ کی پیشانی مبارک پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی تھی ھذاحبیب اللہ مات فی حب اللہ ۔
چنانچہ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت خواجہ فخرالدین علیہ الرحمہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
ازواج و اولاد
آپ نے دو شادی کی پہلی شادی590ھ میں بےبی امۃاللہ سے کی اوردوسری شادی 620ھ میں سید وجیہ الدین کی دختر نیک اختر بی بی عصمت اللہ سے کی۔
آپ کی چار اولاد ہوئیں،ان میں سے تین لڑکے سب سےبڑے فرزند حضرت خواجہ فخر الدین علیہ الرحمہ، دوسرے حضرت خواجہ ضیاء الدین، تیسرے حضرت خواجہ حسام الدین اور ایک دختر نیک حضرت حافظہ بی بی جمال تھی۔
خلفاء
حضرت خواجہ صاحب کے خلفاء کی تعداد کثیر ہے جن میں سے چند مشہور یہ ہیں 1بختیارکاکی2 فرید الدین مسعود گنج شکر3 نظام الدین اولیا 4خواجہ بندہ نواز گیسودراز 5شمس الدین التمس بادشاہ ہندوستان6 شہاب الدین محمد بن سام غوری فاتح دہلی وغیرہم۔
تصنیفات
(1)انیس الارواح =از ملفوظات حضرت خواجہ عثمان ہارونی (2)گنج اسرار جو مجموعہ دیگراز خواجہ عثمان ہارونی اور شرح مناجات خواجہ عبداللہ انصاری ہیں (3)دلیل العارفین=یہ مسائل طہارت، نماز،ذکر، محبت، آداب سالکین کے بارے میں(4) بحر الحقائق آپ کے ملفوظات میں سے ہے(5)اسرار الواصلین، (6)رسالہ وجودیہ ،(7)کلمات خواجہ معین الدین (8)دیوان معین الدین چشتی اس میں شامل غزلیات فارسی ہیں ۔
خلاصۂ مضمون
ساتویں صدی کے افق پر خطۂ سجستان سے طلوع ہونے والا علم وفضل اور رشد و ہدایت کا یہ روشن ستارہ طویل سیرو سیاحت کے بعدہندوستان پہنچے۔ اوراجمیر میں قیام پذیر ہوئے جو کہ بت پرستی کا مرکز تھا۔جہاں آپ نے اپنی موثر تبلیغ، حسن اخلاق، اعلی سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیااس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی بت پر برستی کامرکز تھا اسلام اور ایمان کا گہوارہ بن گیا عطاء رسول حضرت خواجہ غریب نواز نے تبلیغ اسلام اور دعوت حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریبا45سال گزارے آپ کی کوششوں سے جہاں کفروشرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ خواجہ صاحب کی روحانی کوششوں سے تقریبا 90 لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا جو کہ ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔۔۔۔
طالب دعا سگ دربار مخدوم اشرف ناچیز احمدرضا اشرفی جامعی اتر دیناجپوری بنگال۔۔
0 تبصرے