چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
والدین کریمن کی دیر پا و دیرینہ خواہش تھی کہ میں ایک ایسے دبستان علم و ادب میں مشفق و مربی، ذی استعداد و جفاکش اساتذہ کے زیر سایہ کرم میں رہ کر ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی اور زانوئے تلمذ تہہ کروں جو کسی ولی کامل اور صانع عالم کے بر گزیدہ کا فیض یافتہ ہو، تبھی سے میرے نہاں خانہ دل میں یہ تخیل انگڑائیاں لینے لگا کہ میں مرکز عقیدت ”جامع اشرف“ کا انتخاب کروں اور یہی مکتبہ فکر میرے خیر خواہوں کا بھی تھا ، مرور ماہ رمضان المبارک کے بعد ¹⁰ شوال المکرم ²⁰¹⁷ء کو اپنے والدین کی دیرینہ خواہش کی تکمیل، خواب کی تعبیر اور ان کی سوچ و فکر کو دوبالا کرنے کے لیے اپنا رخت سفر باندھ کر فراق اہل خانہ میں بھیگی پلکوں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ جانب منزل رواں دواں ہوا، اور ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد مادر علمی تک رسائی ہوئی ، کیمپس میں داخل ہوتے ہی ابر آلود آسماں کے زیر سایہ دیدہ زیب فلک شگاف گہوار علم و ادب کی پرشکوہ و جاذب نظر عمارتیں ، ہرے بھرے پیڑ پودے اپنے تمام تر جلوہ سامانیوں سے میری آنکھوں کو بیتاب و خیرہ کر رہے تھے ، یہاں کا مسحور کن ماحول فکر کی بالیدگی کو تازہ دم کرر تھا، خوش کن مناظر سے دل فرطِ طرب میں جھوم رہا تھا، چہرے سے پژمردگی کا بادل چھٹ رہا تھا المختصر بڑا ہی پر کیف و خوشنما منظر تھا بعد ازاں فیضان مخدومی سے مالا مال ہونے کے لیے آستانہ غوث العالم محبوب یزدانی قدوۃ الکبری سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نور اللہ مرقدہ کی جانب رخ کیا اور زیارت و قدم بوسی سے مشرف ہوا جس سے یہاں کی پاکیزہ اور عطر بیز فضائیں میر اندر مزید گھر کر گئیں، پھر شریک امتحان ہوا اور دو دنوں تک رزلٹ کا شدت سے منتظر رہا، پھر کیا ہونا تھا کہ ¹⁴ شوال المکرم کی صبح کو یکا یک میری سعادتمندی اور ارجمندی کا ستارہ چمک اٹھا۔
بلا شبہ جامع اشرف علم و ادب کا وہ عظیم سنگم و سرچشمہ اور ایسا چشمہ سیال ہے جہاں سے علوم و معارف کی نہریں رواں ہوتی ہیں، جس کی تاسیس حضور شیخ اعظم حضرت علامہ سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ نے ¹⁹⁷⁸ء کو لوگوں میں علمی سرگرمیوں کی جوت جگانے ، اپنے جدِ امجد عالم ربانی حضور سید شاہ احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کے تخیل کو عملی جامہ پہنانے اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے اپنے والد بزرگوار سرکار کلاں رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری زیست ہی میں رکھی، حضور شیخ اعظم نے شبانہ روز کی محنت و مشقت اور نہایت ہی عرق ریزی و جانکاہی سے اس لہلہاتے ہوئے گلشن کی آبیاری کی، انہوں نے اپنی جانفشانی سے اس کشت ویراں میں لالہ کاریاں کر کے لالہ زار بنادیا اور اپنی جاں گسل محنت سے تبلیغ دین، ترویج حق اور اشاعت اسلام کی آماجگاہ بنادیا یہی وجہ ہے کہ کوئی درس و تدریس کے وسیع و عریض میدان میں اپنا جواہر پارے لٹا رہا ہے ، کوئی تصنیف و تالیف میں اپنے قلم کی تمازت بکھیر رہا ہے، کوئی بحر خطابت میں غوطہ زن ہوکر زبان و بیان میں سخن وری و سخن آرائی اور رعنائیاں پیدا کرنے کا جام پلا رہا ہے
خود شیخ اعظم فرماتے ہیں:
”میں نے جامع اشرف کی تعمیر پھولوں کی سیج پر بیٹھ کر نہیں بلکہ کانٹوں کی راہ پر چل کر کی ہے“ فی الوقت اہل السنت والجماعت کا یہ مرکزی ادارہ زیب سجادہ سفیر امن و محبت حضور قائد ملت سید شاہ محمود اشرف اشرفی الجیلانی دام ظلہ علینا کی زیر سرپرستی میں روز افزوں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، جس میں متحرک و فعال اور مسقبل شناس اساتذہ کرام زیور علم و عمل سے آراستہ کرنے کے لیے نامزد ہیں، جنہوں نے ہزاروں تشنگان علوم و آگہی کو سیراب کیا، جہد مسلسل اور عمل پیہم سے ہزاروں لعل و گوہر پیدا کئے، یہاں کے فارغ التحصیل علماے کرام ملک و بیرون ملک کے مختلف خطوں اور گوشوں میں رہ کر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں ، کچھ بیدار مغز فارغین جامع ازہر مصر جیسا عظیم الشان ادارہ ، اور یونیورسٹیز میں کتابوں کو زیب نگاہ رکھ کر مادر علمی کا نام روشن کر رہے ہیں، ان سے مجھے امید ہے کہ بیشتر مخلص و متحرک و باصلاحیت طلبہ انہیں اپنا مطمح نظر بنا کر سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے روشن مستقبل کی تعمیر و ترقی، مذہب اہل سنت کے فروغ و استحکام میں نمایاں کردار ادا کریں گے،
یہاں کے باذوق و باشعور، بیدار مغز اور و ہونہار طلبہ علم کی جستجو میں شب و روز سرگرداں و کوشاں رہا کرتے ہیں، حضور شیخ اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے مساعی جمیلہ سے ہمارے اندر علمی لیاقت و جولانیت اور زبان و قلم میں شائستگی و نکھار پیدا کرنے کے تئیں ¹⁹⁹⁵ء کو ”مختار اشرف“ جیسی عظیم لائبریری اور نت نئے سہولیات فراہم کئے، جو قدیم و جدید نسخاجات ، کتب فقہ وتفاسیر، علوم قرآن و احادیث، سیر و تواریخ اور دیگر فنون کے بیش بہا کتب سے مزین و مملو ہے، اس میں طلبہ در پیش مسائل کے حل کے تئیں کتب بینی و اوراق گردانی کرتے ہیں ، اپنے نہاں خانہ دل میں علمی لگاؤ، دلچسپی اور شغف پیدا کرتے ہیں، اور کتابوں سے اپنی آنکھوں کا رشتہ مضبوط و مستحکم اور ہموار کیا کرتے ہیں،
مادر علمی کے مختلف شعبہ جات ہیں، حفظ، ابتداء تا فضیلت، دو سالہ تخصص فی الفقہ، قرأت، انگلش اینڈ کمپیوٹر دور اندیش و جفاکش اساتذہ کی سرکردگی میں سر انجام دیئے جاتے ہیں۔
گراؤنڈ کے اندر گنبد نما عمارت اسی مرد حق آگاہ کی آخری قیام گاہ ہے جو معاصرین میں متبحر عالم دین، معتبر و مستند فقیہ، ممتاز متکلم ، اور شعر و ادب کے مزاج آشنا تھے، ، مسائل دینیہ کے ژولیدہ زلفوں کو آراستہ کرنے والا ، رازی و غزالی کی گتھیاں سلجھانے والا، لا دینیت کی بیخ کنی اور بد مذہبیت کا قلع قمع کرنے والا درس و تدریس میں انمٹ نقوش چھوڑنے والا، تصنیف و تالیف میں قلم کی سیاہی کا حق ادا کرنے والا، زہد و ورع میں یگانہ روزگار تھے، ہر میدان میں ان کے خلوص و للہیت کی جلوہ گری نمایاں طور پر دکھائی دیتی تھی، وہ ایک ایسی شمع تھے جس کے گرد لاکھوں پروانے اکتساب نور کے تئیں اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگادیتے۔ اس مرد قلندر کی تربت پر حق جل شانہ بے پایاں و بیکراں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کے فیضان علمی سے ہم سبھوں کو شادکام فرماے۔۔۔!
جامع اشرف گلشن ہے ہم اس گلشن کے دیوانے
یہ علم و ہنر کی شمع ہے اور ہم ہیں اس کے پروانے
🖊️: رھبر رشیدی جامعی عفی عنہ
۲۶/۱۰/۲۲
0 تبصرے