مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی: ایک عبقری شخصیت
سردست میں آپ کو اس بات سے باور کرادینا چاہتا ہوں کہ یہ ہماری سعادتمندی اور سرخروئی ہی کہئیے کہ ہمارے دل میں ایسی بلند پایہ شخصیت کے متعلق نگارشات قلم کو عوامی سطح پر پیش کرنے کا تخیل اور داعیہ پیدا ہوا ، جن کی ذات اکناف عالم میں کسی سے مخفی نہیں بلکہ مہر نیم روز کی طرح عیاں ہے، جو تصوف و روحانیت، علم و عمل،فضل و کمال اور اصلاح فکر و اعتقاد کے عظیم سنگم ساتھ ہی ساتھ گوناگوں اوصاف و کمالات اور خوبیوں کے جامع تھے جن کا دربار میکدہ علم و آگہی تھا اور جہاں بادہ گساران طریقت کا جم غفیر رہا کرتا تھا ، جن کا آستانہ آج بھی مرجع خلائق ہے ، گرد و پیش میں لاکھوں کی شمار میں مختلف مذاہب کے آدمیوں کا ہجوم و طمطراق رہا کرتا ہے اور بفضلہ تعالیٰ سبھی لوگ بامراد ہوکر واپس ہوتے ہیں ،جن کی ضیا بار کرنیں صبح قیامت تک درخشندہ و تابندہ رہیں گی اور تشنگان علم و معرفت اس کی خوشبو سے اپنے مشام جاں کو سدا معطر کرتے رہیں گے اعنی تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔
علم و فن کا یہ مہر درخشاں ⁷⁰⁸ھ کو ایران کے دارالسلطنت سمنان میں شکم مادر سے آغوشِ مادر میں جلوہ آرا ہوے ۔۔۔ آپ سلطان سید ابراہیم کے صلب اور سیدہ طاہرہ خدیجہ کے شکم اطہر سے اس خاکدان گیتی پر تشریف لائے، والد ماجد سلطنت ایران کے حکمراں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز عالم دین بھی تھے جو کتابوں سے اتنا شغف رکھتے کہ بیک وقت مدارس اسلامیہ میں درس تدریس کی بے لوث خدمات بھی سر انجام دیتے، ہزاروں مدارس اسلامیہ کی بنیاد ڈالی اور خود اس کی سر پرستی فرماتے۔۔۔ والدہ ماجدہ بھی نہایت پاکباز و راستباز اور تقوی شعار تھی لطائف اشرفی میں لکھا ہے کبھی تہجد کی بھی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔۔۔
حضور سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کی تیز فہمی، ذہانت و فطانت، ان کے تبحر علمی، وسعت نظری اور علمی جولانیوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں مع قرأت سبعہ قرآن مجید کے حافظ بن گئے، اور چودہ سال کی قلیل مدت میں معقولات و منقولات میں ید طولیٰ حاصل کر کے فارغ التحصیل ہوئے، سید اشرف جہانگیر سمنانی علوم و فنون کے اعتبار سے معاصرین میں یگانہ روزگار اور یکتائے زمانہ تھے، ان کے علمی جولانیوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ جہاں کہیں بھی دین متین کی تبلیغ و اشاعت کے تئیں تشریف لے جاتے وہیں کی زبان میں اپنا عندیہ و مکتبہ فکر اور نگارشات قلم کو عوامی سطح پر پیش کرتے، آپ نے درس و تدریس کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دئیے اور علم دین کے فروغ و ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ہزاروں طالبان علوم نبویہ نے آپ کی درسگاہ فیض میں زانوئے ادب طے کیا اور شرف تلمذ حاصل کرکے تشنگانِ علوم و فنون علم و آگہی کے اس چشمہ صافی سے سیراب ہوے
حضرت قدوۃ الکبری نے جب پندرہویں منزل میں قدم رکھا تو والد محترم کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا اور آپ کے سر پر تاج شاہی رکھا گیا، تخت سمناں پر بحیثیت حکمراں رونق افروز ہوئے اور سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی، تقریباً دس سال تک تخت شاہی کو رونق بخشی، حضور سید اشرف جہانگیر سمنانی جب تخت سمناں پر جلوہ افروز ہوئے تو اپنے والد محترم کے قائم کردہ سلسلہ تعلیم نہ صرف جاری رکھا بلکہ آپ نے اسے مزید فروغ دینے میں کوشش و جتن کی والد گرامی کی طرح مدارس کی سرپرستی فرمائی، علماء و طلباء کے تئیں وظائف مقرر کئے، علمی کارنامے میں ان کی حوصلہ افزائی کی، کثیر تعداد میں نادر و نایاب، بیش بہا کتابیں تصنیف کیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوسوں دور سے تشنگانِ علم و معرفت آتے اور سیراب ہوکر لوٹتے، آپ کے دور اقتدار میں رعایا خوشحال و فارغ البال تھی ، سبھی لوگ اپنے نو عمر حکمراں پر جان چھڑکتے اور نچھاور کرتے تھے، ہر چہار سمت حق گوئی و راستبازی اور عدل و انصاف کا دور دورہ تھا غرض خراسان کی یہ سلطنت عدل و انصاف اور امن و امان میں عدیم المثال تھی۔۔۔۔۔ اقتدار کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کی جو آگ دل میں لگی تھی شبانہ روز بڑھتی گئی، حتیٰ کہ جب جوانی انتہائی دیوانگی کو چھونے لگی ، جو آگ دل میں سلگ رہی تھی وہ شعلہ بن گئ اور دل امور سلطنت سے اچاٹ ہونے لگا پھر آپ ماہ رمضان المبارک ²⁷ویں شب عبادت وریاضت میں مشغول تھے کہ حضرت خضر علیہ السلام تشریف فرما کر فرمایا: اے اشرف تم جس مقصد کے لیے آئے تھے اس کی تکمیل کا وقت آگیا ہے لہٰذا سلطنت کو ترک کرو، حکومت کو لات مارو اور ہندوستان روانہ ہوجاؤ وہاں حضرت علاء الحق والدین گنج نبات تمہاری آمد کے منتظر ہیں، ابھی سورج نے اپنی روشنی کا پر نہیں پھیلایا تھا کہ تخت شاہی سےدست برداری کا اعلان فرمایا اور اپنے چھوٹے بھائی سید اعرف کی تاج پوشی کی یہ واقعہ ⁷³³ھ کا ہے اس وقت آپ کی عمر ²⁵ سال تھی۔ آپ نے سمنان سے پنڈوا شریف تک کا سفر دو سالوں میں طے فرمایا ، وہاں پہنچ کر آپ نے حسب طریق صوفیہ حضرت سلطان المرشدین علاء الحق والدین رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی، چند سالوں تک آپ نے شیخ خدمت کی بعد ازاں بچشم نم پیر و مرشد سے رخصت ہوکر براستہ جونپور کچھوچھہ مقدسہ تشریف لائے اور ہزاروں گم گشتگان راہ کو جادہ مستقیم پر گامزن فرما کر ہدایت کی دولت سرفراز فرمایا، لوگ جوق در جوق آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوتے، حسن و جمال میں آپ فقید المثال تھے ، آپ کے جمال جہاں آراء پر پہلی نظر پڑتے ہی لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے تھے، آپ صاحب کشف و کرامات بھی تھے، جن کو یہاں بیان کرنا چنداں ضرورت نہیں ہے
آپ کی خدمات کا دائرہ نہایت ہی وسیع عریض ہے جو یقیناً ناقابل فراموش ہیں
⁸⁰⁸ھ کو علم و ادب اور تصوف و روحانیت کا یہ درخشندہ ستارہ ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔۔
رھبر رشیدی جامعی غفرلہ
0 تبصرے