Header New Widget

غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علمی مقام۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ

 غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علمی مقام

یوں تو اس خاکدان گیتی میں بے شمار علم دوست و صاحبانِ شریعت و طریقت تشریف لائے اور اپنی علمی و دینی خدمات کے ذریعہ خلق خدا کو ذات وحدہ لا شریک کی معرفت عطا کی اور رسول کی رسالت و نبوت کے اقرار کی جانب انہیں ترغیب دلائی، اپنی علمی و فقہی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خدمت دین متین انجام دی، ضلالت و گمرہی و منافقت کی بیخ کنی کی، نام نہاد و جاہل صوفیا اور گمگشتگان راہ کی پیروی کرنے والوں نے جو طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھی تھی اس کا سد باب کیا۔

   انہیں میں سے ایک ایسی عظیم الشان اور مایہ ناز شخصیت تھی، جن کو اللہ عزوجل نے مادر زاد ولی بنایا، جنھیں رب تعالٰی نے شریعت و طریقت کا محافظ و نگہبان بنا کر پیدا فرمایا، وہ ذات بابرکات قطب ربانی،  محبوبِ سبحانی، شہبازِ لامکانی، قطب الاقطاب، غوث الاغواث، غوث الثقلین، سید الاولیاء حضور شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہے

آپ یکم رمضان المبارک 470ھ کو بوقت شب کتمِ عدم سے منصہْ شہود پر جلوہ فگن ہوئے۔

اور علوم وفنون کی زرتاب کرنیں بن کر کائنات ارضی پر  جگمگانے لگے، گویا اہل دل اور اہل نظر کی مرکز توجہ بن گئے۔

حضرت سیّدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علمِ دین  کی تحصیل و تکمیل اور ریاضت و مجاہدہ کے طویل سفرکے بعد وعظ وتدریس کا آغاز استادِ گرامی حضرت ابو سعد مُخَرِّمِی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے قائم کردہ مدرسہ قادریہ سے کیا، آپ کی تبحر علمی، فقہی بصیرت اور باریک بینی کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں علمائے کرام آپ کی زبان سے ادا ہونے والے علم و حکمت کے لازوال موتیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے اور اکتساب فیض کیا کرتے۔ 

آپ اپنے مدرسہ قادریہ میں تیرہ علوم و فنون کا درس دیا کرتے تھے، بعدِ نمازِ ظہر قراءت قراٰن جیسا اہم مضمون  پڑھاتے اور ہفتہ میں تین دن لوگوں کے مابین خطاب فرمایا کرتے اور ایسا خطاب کہ ستر ستر ہزار افراد اس مجلس میں شریک ہوتے اور آپ کی زبان مبارک سے نکلنے والی نوری شعاؤں سے اپنے دلوں کے میل کو صاف کرتے اور مکمل تطہیر قلب و تصفیۂ باطن کرکے ہی ان کی بارگاہ سے واپس ہوتے تھے. (بہجۃ الاسرار ص٣٣٥)

آپ علم تفسیر و حدیث میں ایک بڑے اور ماہر مفسر کی حیثیت رکھتے تھے اور علم حدیث میں آپ کا اتنا اونچا مقام تھا کہ بڑے بڑے محدثین و مؤرخین آپ کی شان میں قصیدہ خوانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

چناں چہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیث دانی میں جبل شامخ شمار کئے جاتے تھے اور معاصرین میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا یہ دونوں حضرات  آپ  کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضر ہوئے اور ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے۔جب  حضور غوث اعظم نے خطاب کرنا شروع کیا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے اور تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو چونکہ اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ  کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ  بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بن کر سنتے  رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوزی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے (بہجتہ الاسرار 334)

ربِّ علیم و خبیر اللہ عزوجل نے اپنے محبوب بندہ سیِّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علم و عمل اور فنِ افتاء میں وہ کمال عطا فرمایا تھا کہ آپ کو ان تمام چیزوں میں بادشاہت حاصل تھی۔ تشنگانِ علوم میں سے جو بھی اِس در پر آتا، اتنا سیراب ہوجاتاکہ اُسے کہیں اور جانے کی حاجت ہی نہیں رہتی تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ الرحمہ کو تمام علوم کا جامع بنا دیا تھا چناں چہ قاضی القضاة ابو صالح نصر علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ عجم سے ایک فتویٰ بغداد میں آیا اور وہ اس سے پہلے علمائے عراقین پر پیش کیا جا چکا تھا  لیکن جواب تشفی بخش نہ تھا۔ مسئلہ کی صورت یہ تھی کہ علماے کرام اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے تین طلاق پر ایسی قسم کھائی کہ وہ بالضرور ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت دنیا کے تمام لوگوں سے وہ تنہا عبادت کرے، اب ایسی کونسی عبادت کرے  کہ جس سے اس کی بیوی پر تین طلاق واقع نہ ہو۔ جب یہ سوال آپ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً جواب عنایت فرمایا کہ یہ شخص مکۃ المکرمہ جائے  مطاف اس کے لیے خالی کیا جائے اور وہ اکیلا سات طواف ادا کرے اور قسم پوری کرے تب وہ شخص بغداد میں ایک رات بھی نہ ٹھہرا اور اپنی قسم پوری کرنے کے لیے مکۃ المکرمہ پہونچ گیا ۔(بہجتہ الاسرار)

ان شواہد سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ مفتیِ شَرع بھی تھے، قاضیِ مِلّت بھی اور علومِ اَسرار کے بھی ماہر تھے۔

  آپ کی تعلیمات اور آپ کے فرمودات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اگر کوئی بندۂ مومن ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے تو وہ اس دنیا میں بھی سرخرو ہوگا اور کل قیامت کے دن بھی اللہ عزوجل اسے اعلی ترین مقامات سے سرفراز فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضور غوث اعظم کی تعلیمات وفرمودات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

🖊:  محمد تنظیم رضا متعلم جامع اشرف کچھوچھہ مقدسہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے