سراج الفقہاء حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی حفظہ اللہ تعالی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔
راقم نے خامسہ دار العلوم فیض الرسول براؤں شریف, سادسہ دار العلوم علیمیہ جمداشاہی بستی, سابعہ و فضلیت جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ, تخصص فی الادب و الدعوة جامعہ حضرت نظام الدین اولیا ذاکر نگر نئی دہلی, بی اے ویر بہادر پروانچل یونیورسٹی جون پور یوپی,بی اے فیکلٹی آف لینگویجز اینڈ ٹرانسلیشن جامعہ ازہر قاہرہ مصر
ایم اے گورکھپور یونیورسٹی سے پڑھائی کی ان کے علاوہ کئی ڈپلوما وغیرہ حاصل کی ۔۔۔کئی درسگاہوں کے اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہے لیکن بلامبالغہ جو علمی تبحر, افہام و تفہیم اور طرز استدلال ,کسی مسئلہ کے تعلق سے معلومات کا ذخیرہ,زمانہ ,حالات کی رعایت وغیرہ استاد گرامی حضرت سراج الفقہاء صاحب قبلہ رکھتے ہیں ان کی طرح بہت کم لوگوں کو پایا ۔۔۔۔۔علم و عمل کے ساتھ بہت ہی خلیق و ملنسار ہیں ۔۔۔اگر یہ کسی اور مکتبہ فکر کے پاس ہوتے تو سونے سے تولے جاتے ۔۔۔۔لیکن ہمارے یہاں بہت سارے لعل و گہر گمنامی کی زندگی گزارنے کے بعد جب شہرِِ خاموشاں چلے جاتے ہیں تب لوگ ان کی حیات و خدمات منظرعام پر لاتے ہیں اور ان کی خوبیوں اور کارناموں کو یاد کرتے ہیں اور وقیع نمبر نکالے جاتے ہیں! سنی دعوت اسلامی کا آزاد میدان میں اجتماع کے موقع پر " گانا " گانے کے حوالےسے اسٹیج پر دیئے گئے فتوی کو لے کر واویلا مچانا غیر مناسب ہے کیونکہ مطلق گانا کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے ورنہ غزل اور بہت سارے شعراء کے اشعار عربی ,اردو,ہندی اور انگریزی زبانوں میں مدارس و یونیورسٹیز میں نصاب میں داخل ہے , اس لیے گانے کو " مقید " کے ساتھ جواز و عدم جواز کا فتوی دینا تفقہ فی الدین کی علامت ہے ۔ امرء القیس کی دیوان متبنی کو مدارس میں پڑھائی جاتی ہے جس میں بہت سارے اشعار کا اردو میں ترجمہ کرنے میں شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔۔۔آج تک اس کو قدیم عربی سیکھنے کی وجہ سے پڑھائی جاتی ہے ؟ اس لیے بات کو بتنگڑ نہ بنائیں ۔۔۔ایک عظیم فقیہ کے فتوی کو سمجھنا ہم جیسے طفلِ مکتب کے بس کی بات نہیں ہے۔
محمد عباس الازہری
0 تبصرے