Header New Widget

تذکرہ حضرت امام محمد شیبانی رحمة اللہ علیہ۔ تعارف مع فضائل ومناقب

 تذکرہ حضرت امام محمد شیبانی رحمة اللہ علیہ۔  تعارف مع فضائل ومناقب

ازقلم : مولانا محمد نوشاد عالم اشرفی جامعی صاحب قبلہ 

تعارف 

 آپ فقیہ عراق، علامہ ، ابوعبداللہ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی، کوفی ، بغدادی ،حنفی شاگردامام اعظم ابوحنیفہ ہیں۔  آپ کےآباءو اجداد دمشق کےگاؤں حرستا میں رہا کرتےتھے۔ جہاں سے آپ کے والدمنتقل ہوکر عراق آگئے۔ 

پیدائش اورنشوونما

 آپ عراق کےواسط میں۱۳۲ ھ میں پیدا ہوئے اور کوفہ میں پلے بڑھے۔

تعلیم وتربیت اورمشہورزمانہ اساتذہ

 آپ نے یکےبعددیگرےامام اعظم اورامام ابویوسف کی شاگردی اختیارکی ۔ امام اعظم سے دوسال فقہ کادرس لیا۔  پھرامام اعظم کی وفات کےبعد فقہ کی باقی تعلیم امام ابویوسف کے پاس مکمل کی۔  ان دونوں حضرات سے فقہ کے علاوہ حدیث کابھی درس لیااورسماع فرمایا۔  پھراس زمانے کے مشہورمحدث حضرت امام مالک بن انس رحمة اللہ علیہ سے درس حدیث اورسماع حدیث کے لئے مدینے کاسفرکئےاورتین سال کچھ مہینےامام مالک کی خدمت میں رہ کرحدیث کےایک بڑے حصے کی سماعت وکتابت فرمائی ۔

دیگراساتذہ

 آپ نےامام اعظم، امام ابویوسف اورامام مالک کےعلاوہ امام اوزاعی حضرت مسعربن کدام، حضرت سفیان ثوری، حضرت عمروبن دینار، حضرت مالک بن مغول، حضرت زمعہ بن صالح، حضرت بکیربن عامراورحضرت عمربن ذر،حضرت عبداللہ بن مبارک علیھم الرحمہ سےبھی احادیث کاسماع فرمایا۔

درس وتدریس

 محض بیس سال کی عمرمیں مسجد کوفہ میں درس وتدریس کے لئے بیٹھے۔  پھر بغداد تشریف لے گئے اورو ہیں سکونت اختیارفرماکر حدیث کے درس وافادہ میں مشغول ہوئے۔

تلامذہ

آپ سے روایت کر‌نے والےامام شافعی محمدبن ادریس، حضرت ابوسلیمان موسٰی بن سلیمان جوزجانی، حضرت ہشام بن عبیداللہ رازی، حضرت ابوعبیدقاسم بن سلام، حضرت علی بن مسلم طوسی، حضرت ابوحفص کبیر، حضرت خلف بن ایوب، حضرت احمدبن حفص فقیہ بخارٰی ،حضرت عمروبن عمرو حرانی ،حضرت اسد بن فرات ،حضرت عیسیٰ بن ابان شیخ علی بن معبد بن شداد،شیخ ابراہیم بن رستم ابوبکر مروزی ہیں اور شیخ محمد بن سماعہ بن عبداللہ بن ہلال وغیرھم ہیں

منصب قضا کی ذمہ داری

خلیفہ ہارون رشیدنے قاضی ابویوسف کے بعد آپ کومقام رقہ میں قضاکا محکمہ سپردکیا۔  جہاں آپ نےرقیات کے نام سے ایک کتاب لکھی۔  پھرخلیفہ نے آپ کومعزول کردیااورآپ بغدادآگئے۔

تصانیف

 آپ نے منصب قضا اور تدریس و افتاء کی ذمہ داریوں کو انجام دینے کے ساتھ فقہ و حدیث کی 900/ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے صاحب کشف الظنون نے آپ کی درج ذیل  تصنیفات شمارکی ہیں: (١) الاحتجاج علی مالک (٢) الاکتساب فی الرزق المستطاب (٣) الجامع الصغیر (فی  الفروع) (٤) الجامع الکبیر(فی الفروع) (٥) الجرجانیات (٦) الرقیات(فی المسائل) (٧) الزیادات(فی الفروع) (٨) زیادة الزیادة(فی الفروع)(٩) السیرالصغیر(فی الفقہ)(١٠) السیرالکبیر(فی الفقہ)(١١) عقائدالشیبانیة قصیدة الفیة (١٢) کتاب الآثار(فی الففقہ والحدیث)(١٣) کتاب الاصل(فی الفروع)(١٤) کتاب الاکراہ (١٥) کتاب الحج (١٦) کتاب الحیل (١٧) کتاب السحبات(امالی) (١٨) کتاب الشروط (١٩) کتاب الکسب (٢٠) کتاب النوادر (٢١) الکیسانیات (٢٢) المبسوط(فی الفروع) (٢٣) مناسک الحج (٢٤) نوادرالصیام یا انوارالصیام (٢٥) الھارونیات۔اس کے علاوہ مؤطا امام محمد اور کتاب الآثار وغیرہ وغیرہ

فضائل ومناقب

 آپ علم کے سمندرتھے۔ بالخصوص علم فقہ کے۔ امام اعظم کے شاگردوں میں آپ کویہ نمایاں خصوصیت حاصل ہے کہ آپ ہی کی تصنیفات سے امام اعظم کاعلم اورمذہب آفاق عالم میں پھیلا۔ فقہ حنفی کامبنیٰ اورماخذآپ کی تصنیفات ہیں۔ آپ سے خودآپ کے بارے میں درج ذیل ارشادات منقول ہیں:

 (١) میرے والد نے تیس ہزاردرہم چھوڑکردنیاسے رحلت فرمائی۔ میں نے ان میں سے پندرہ ہزارنحواورشعرپراورپندرہ ہزارحدیث اورفقہ پرخرچ کئے۔ اورایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: میں نے ان میں سے پندرہ ہزارنحواورلغت پراورپندرہ ہزارفقہ اورحدیث پرخرچ کئے۔

(٢) میں امام مالک کے دروازہ پرتین سال رہااورمیں نےسات سوسے زیادہ احادیث سماعت کی ۔  اورایک دوسری روایت میں ہے کہ میں امام مالک کے دروازہ پر تین سال اورکچھ مہینے رہااورسات سوسے زیادہ احادیث سماعت کیں۔  واضح رہےکہ آپ نے اپنی کتاب"مؤطاامام محمد"میں امام مالک کی روایت سے ١٠٠٥/روایتیں ذکرکی ہیں۔ہے

امام شافعی کے ارشادات

آپ کے شاگردحضرت امام شافعی علیہ الرحمہ سے درج ذیل ارشادات منقول ہیں:

(١) میں نے امام محمدسے زیادہ ذہین نہیں دیکھا۔

(٢) میں نے امام محمدسے زیادہ عقلمندنہیں دیکھا۔

(٣) میں نے امام محمدسے زیادہ فصیح نہیں دیکھا۔

(٤) آپ جب قرآن پڑھتے توایسامحسوس ہوتاجیسے قرآن آپ کی لغت میں نازل ہواہے۔

(٥) آپ جب کوئی مسئلہ بیان فرماتے توایسا محسوس ہوتاکہ گویا قرآن نازل ہورہاہے۔نہ ایک حرف مقدم کرتے نہ ایک حرف مؤخر۔

مطلب یہ ہے کہ آپ کاکلام نہایت منظم ومربوط اورفصاحت وبلاغت کے اونچے معیارپر ہوتاتھا۔  جس میں تقدیم وتاخیرحذف واضافہ اورکمی بیشی کی  کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔

(٦) آپ جب امام مالک کی راویت سے احادیث بیان فرماتے توآپ کاگھرلوگوں سے بھرجاتااورلوگ اتنے زیادہ ہوتے کہ جگہ چھوٹی پڑجاتی۔

(٧) میں نے ایسا کوئی موٹا آدمی نہیں دیکھاکہ جس کی طبیعت میں امام محمدسےزیادہ لطافت اورپاکیزگی ہو۔  اورایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ میں نےکبھی ایسافربہ آدمی نہیں دیکھاجوامام محمدسے زیادہ ذہین ہو۔

(٨) میں نےایساکسی کونہیں دیکھاکہ اس سے کوئی باریک مسئلہ پوچھاجاتاہوتواس کے چہرے پرکراہت کااثرنہ ہوسوائے امام محمدکے۔

(٩) میں نے آپ سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابرکتابیں پڑھی ہیں۔  اورایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نےآپ سےاپنے بختی اونٹ کے برابرکتابیں پڑھی ہیں۔

 (١٠) آپ آنکھ اوردل دونوں کوبھردیتے تھے۔

معنی یہ ہےکہ آپ سےآنکھ اوردل دونوں کوتسکین حاصل ہوتی تھی اوردونوں آسودہ ہوجاتےتھے۔ کسی میں تشنگی باقی نہیں رہتی تھی۔

(١١) اگر یہودو نصاریٰ آپ کی کتابوں کو دیکھتے تو یقیناً وہ ایمان لے آتے۔

دیگرمعاصرین کے ارشادات

حضرت محمدبن سماعہ فرماتےہیں کہ محمدبن حسن نےاپنے گھروالوں سے کہا کہ مجھ سے کسی دنیوی ضرورت کاسوال کرکے میرے دل کومشغول نہ کرو۔  تمہیں جس چیزکی ضرورت ہومیرے وکیل سے لے لوتاکہ میں خالی الذھن اورفارغ القلب رہوں ( اوردین کی خوب خدمت کروں ) ۔

حضرت ابوعبیدفرماتےہیں کہ میں نے امام محمدسے زیادہ کتاب اللہ کاعلم رکھنے والانہیں دیکھا۔

حضرت ابراہیم حربی فرماتے ہیں کہ میں نےامام احمدسے کہاآپ یہ باریک مسائل کہاں سے لاتے ہیں؟ توانہوں نے فرمایامحمدبن حسن کی کتابوں سے۔

حضرت محمویہ فرماتے ہیں: ہم انہیں ابدال میں سے شمارکرتے تھے۔

ایک شخص نےامام مزنی سے علمائےاہل عراق کےاحوال دریافت کرتے ہوئے پوچھاآپ ابوحنیفہ کے بارے میں کیافرماتے ہیں؟ توانہوں نے کہاوہ عراقی علماء کے سردارہیں۔ اس نے کہاابویوسف؟ توانہوں نے کہاوہ حدیث کی سب سے زیادہ پیروی کرنے والے ہیں۔  اس نے کہامحمدبن حسن؟ توانہوں نے کہاوہ تفریع میں یعنی اصول وقواعدکوجزئیات پرمنطبق کرنے میں سب سے بڑھ کر ہیں اس نے کہازفر؟ اانہوں نے کہاوہ قیاس میں ماہرہیں۔

حضرت امام احمدبن حنبل سے منقول ہے کہ جب کسی مسئلہ میں تین حضرات کاقول موجودہوتوان حضرات کی مخالفت میں کسی اورکاقول مسموع نہیں ہوگا۔  پوچھاگیاوہ تین کون ہیں؟ فرمایاابوحنیفہ، ابویوسف اورمحمدبن حسن ۔ ابوحنیفہ لوگوں میں قیاس کے سب سے زیادہ ماہر، ابویوسف لوگوں میں آثارکے سب سے زیادہ ماہراورمحمدلوگوں میں عربیت کے سب سے زیادہ ماہرہیں ۔

شیخ ابوزھرہ اپنی کتاب"الشافعی میں لکھتے ہیں: امام محمدامام ابوحنیفہ کے دست راست،اجتہادکے منصب عالی پرفائزاورگراں مایہ علمی اورشخصی کمالات کے جامع تھے۔امام محمدنہ صرف امام شافعی کے استادتھے بلکہ ان کی ذہنی ، فکری، عقلی اورعلمی تربیت میں بھی ان کابڑاحصہ تھا۔ گوفقہ واجتہادمیں امام شافعی اورامام محمدکے مسلک میں اختلاف وتفاوت ہےلیکن ایک زرف بیں اس سے انکارنہیں کرسکتاکہ امام شافعی کی فکروحیات پرامام محمدکے بڑے گہرے نقوش مرتسم ہیں جوصاف اورنمایاں نظرآتے ہیں اہل علم ونظرکے لئے ان کی معرفت دشوارنہیں۔

ایک اورمقام پرلکھتے ہیں

امام شافعی نے امام محمدسے صرف فقہ وراۓ ہی نہیں حاصل کی بلکہ ان سے حدیث کی روایت بھی کی چنانچہ اپنی شہرہ آفاق کتاب "الام"میں لکھتے ہیں:ہم سے امام محمدبن حسن نے، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے عبداللہ بن دینارنےاور ان سے عبداللہ بن عمرنے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ولاایساہی خونی رشتہ ہے جیسانسب نہ اسے فروخت کیاجاسکتاہے نہ ہبہ کیاجاسکتاہے۔

وصال

 آپ خلیفہ ہارون رشیدکی گزارش پران کے ساتھ خراسان کے سفرپرنکلے اوروہاں مقام رئے میں  قضاۓ الٰہی سے ۱۸۹ھ میں وصال فرماگئے، رۓ ہی میں آپ کی تدفین ہوئی۔  خطیب بغدادی کے بقول کل عمرشریف ۵٨ سال ہوئی۔

حضرت احمدبن یحییٰ ثعلب فرماتے ہیں کہ کسائی اورمحمدبن حسن دونوں کاانتقال ایک ہی دن ہواپس لوگوں نے کہاآج لغت اورفقہ دونوں دفن ہوگئے۔  اورایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ کسائی اورمحمدبن حسن ایک ہی دن وفات پائے توہارون رشیدنے کہاآج لغت اورفقہ دونوں اٹھ گئے اوررے میں مدفون ہوگئے۔

محمویہ کابیان ہےکہ میں نے محمدبن حسن کوخواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اے ابوعبداللہ آپ کاانجام کیاہوا؟ توانہوں نے کہاکہ مجھ سے میرے رب نے فرمایاکہ میں نے تمہیں علم کابرتن اس لئے نہیں بنایاتھاکہ تمہیں عذاب دوں۔میں نے پوچھاابویوسف کاکیاحال ہے؟کہا:مجھ سے اونچے درجے پرہیں۔ میں نے پوچھاابوحنیفہ؟بولے ابویوسف سے کئی درجہ اوپرہیں۔

حوالہ جات

 (١) علامہ عبدالحی لکھنوی کا"مقدمة التعلیق الممجد علی مؤطاالامام محمد"ص٢٨۔  ٢٩۔ 

(٢) علامہ، حافظ ابوزکریامحی الدین بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ھ کی" تھذیب الاسماءواللغات" ج ١ ص٨٠۔ ٨١۔ ٨٢

( مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان )

(٣) علامہ ابن حجرعسقلانی کی" لسان المیزان" ج ٦ ص ٢٤۔     ٢٥۔ ٢٧ ( مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،لبنان ۔  سن اشاعت١٤١٦ھ/1995ء )

(٤) علامہ ، ابوعبداللہ محمدبن احمدبن عثمان ذھبی متوفی ٧٤٨ھ کی "میزان الاعتدال فی نقدالرجال"ج٣، صفحہ ٥١٣ ( مطبوعہ دارالمعرفہ،  بیروت، لبنان )

(٥) علامہ، ابوعبداللہ محمدبن احمدبن عثمان ذھبی کی" "سیراعلام النبلاء"ج ٩، ص ١٣٤

(٦) حاجی خلیفہ کی کشف الظنون"ج٦ص٨مطبوعہ دارالفکر،بیروت،لبنان۔سنہ اشاعت١٤١٠ھ١٩٩٠ء۔

(٧) علامہ عبدالعزیز فرہاری کی"النبراس " ص ٢٧٨.

(٨) نبراس۔ص٢٧٨

(٩) امام شافعی ترجمہ الشافعی۔مصنف: شیخ ابوزہرہ مصری، مترجم :سید رئیس احمدجعفر ص ٦٤مطبوعہ لاہور۔

مضمون نگار

 حضرت مولانا محمد  نوشاد عالم اشرفی جامعی صاحب قبلہ کشنگنجوی ، استاد جامع اشرف کچھوچھہ شریف

شائع کردہ:مجلس ثقافت

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے