چند اہم فتوے
زیر نظرکتاب۔چنداہم فتوے۔استاذگرامی حضرت مفتی
شہاب الدین اشرفی جامعی شیخ الحدیث وصدرمفتی جامع اشرف کچھوچھہ شریف کے درج ذیل پانچ تحقیقی فتاوی کامجموعہ ہے۔
۱/مسجدمیں سی سی ٹی وی کیمرہ لگانے کاشرعی
حکم
۲/سیاہ خضاب لگانے کاشرعی حکم
۳/مشینی ذبیحہ کاشرعی حکم
۴/مروجہ نوٹ کوکمی زیادتی کے ساتھ بدلنے کاشرعی حکم
۵/بڑے دیہات میں نمازجمعہ اوربعدجمعہ ظہرپڑھنے کاحکم۔
اس کتاب کی اشاعت جامع اشرف کے تخصص فی الفقہ کے طالبعلم عزیزم محمدکوثراشرفی جامعی نے اپنی دستارفضیلت کے موقع پردارالعلوم امینیہ شفیقیہ جموئی بہارسے کرائی ہے۔
اس کتاب کی اشاعت مذکورالصدرطالبعلم کی اپنے استاذ کے ساتھ بے لوث محبت پرواضح دلیل ہے ۔مولی کریم اس طالبعلم کودارین کی بھلائیوں سے بہرہ ور فرمائے۔
کتاب کے تمام مندرجات کامطالعہ میں خودنہیں کرسکاہوں اس لئے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ہاں اتناضرورہے کہ ایک جلیل القدرعالم کی کتاب ہے تویقیناتحقیق انیق پرمشتمل ہوگی۔حضرت مفتی صاحب وہ شخصیت ہیں جنہیں میں فقہ وفتاوی کاانسائیکلوپیڈیاکہتاہوں۔
میں نے صرف دوفتوے پرایک سرسری نظرڈالی ہے جن میں سے ایک پراس دن جس دن یہ کتاب مجھے موصول ہوئی تھی دوسرافتوی ابھی آدھاگھنٹہ قبل۔
جمعہ کی شب اوردن ایک مدرس کے لئے فرصت وفراغت کے لمحات سمجھے جاتے ہیں کھاناکھاکرچہل قدمی کرکے بسترپردرازہوناہی چاہ رہاتھا کہ یکایک ایک صاحب کافون آیاان کی کسی بات کے جواب کے لئے مجھے اپنی ایک چھوٹی سی ڈائری کی تلاش ہوئی اسی تلاش کے دوران میز کے ایک کونے پررکھی اس کتاب پرنظرپڑی اورفون رکھنے کے بعد کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے چوتھے نمبرپرمندرج فتوے پرنظرپڑی ۔پھرطبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے پورافتوی پڑھ لیا۔ فتوی کوپڑھنے پرآمادہ کرنے والی چیزیہ تھی کہ یہ فتوی میرے ایک حالیہ درس سے متعلق تھا۔ھدایہ آخرین کی کتاب البیوع کی متن کی عبارت ہے ویجوزبیع الفلس بالفلسین باعیانھما جس کا مجھے آج درس دیناتھالیکن ششماہی امتحان کے ایک جماعت کے رزلٹ چارٹ کی تیاری میں آفس میں مصروفیت کے باعث درس نہ دے سکا۔اس عبارت کامطلب یہ ہے کہ ایک معین پیسہ کی بیع دومعین پیسوں کے عوض جائزہے صاحب ہدایہ نے اس عبارت کی شرح میں کہا کہ متن میں مذکورقول امام اعظم اورامام ابویوسف کاہے اور امام محمدکے نزدیک یہ جائزنہیں ہے پھرسب کے دلائل ذکرکئے ۔
علماء جانتے ہیں کہ اصول فتاوی میں سے یہ بھی ہے کہ فتوی عمومامتون پرہوتاہے اوراس میں اصل یہ ہے کہ وہ امام اعظم کے قول پرہوگااس آخری بات کواس جملے سے بھی تعبیرکیاگیاہے کہ فتوی مطلقاامام کے قول پرہے جس کامطلب یہ ہواکہ فتوی صاحبین یاصاحبین میں سے کسی ایک کے قول پرنہیں ہوگامگرکسی عرض عارض کی بنیادپر لہذاجب تک اصحاب ترجیح کی جانب سے صاحبین یاان میں سے کسی ایک کے قول کی ترجیح معلوم نہ ہوجائے مفتی بہ قول امام اعظم کاہی ماناجائے گا۔
غرضیکہ ہدایہ کی اس عبارت سے مروجہ نوٹ کی کمی زیادتی کے ساتھ بیع کے جوازپرروشنی پڑتی ہے مگرحضرت مفتی صاحب قبلہ اس کے عدم جوازکے قائل ہیں اوراسے سودقراردے رہے ہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ ہمارے جن ائمہ ومجتھدین نے جوازکاقول کیاہے آج کے زمانے میں ہوتے تووہ بھی عدم جوازہی کاقول کرتے اوراسے رباجانتے کیونکہ آج عرف اورزمانہ بدل چکاہے یہ اس زمانہ کاقول ہے جب سونااورچاندی ہی ثمنیت کااصل معیارتھاجوثمن خلقی ہے اوردوسری دھات کے سکے خال خال ہی زرمبادلہ کے طورپرمستعمل تھے لیکن آج ایسانہیں ہے آج پوری دنیامیں کہیں بھی سوناچاندی کے سکے زرمبادلہ کے طورپرمسعمل نہیں ہیں بلکہ ہرجگہ کرنسی نوٹ ہی استعمال کئے جارہے ہیں جوعرفی ثمن ہیں ۔حاصل یہ کہ اصلی اورخلقی کے فرق سے قطع نظررواج اورچلن کے اعتبارسے آج کےزرتبادلہ کرنسی نوٹ نے کل کے زرتبادلہ سونااورچاندی کی جگہ لے لی ہے لہذاجس طرح سونااورچاندی کے سکے دراہم ودنانیرکی بیع کمی زیادتی کے ساتھ جائزنہیں ہے اسی طرح آج کرنسی نوٹ کی بیع بھی کمی زیادتی کے ساتھ جائزنہیں ہے۔
یہ اس پوری بحث کاایک اجمالی نچوڑ ہے جوحضرت مفتی صاحب نے اپنے الفاظ اوراپنے اسلوب میں پیش کی ہے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ دیگرتمام فتاوی میں کس قدراعلی تحقیق وتدقیق کے نمونے پیش کئے گئے ہونگے۔اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کی عمردرازفرمائے ۔اورخداکرے کہ ان کی یہ تصنیف اہل علم میں مقبول ہو۔آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
اگرآپ اس کتاب کوحاصل کرناچاہتے ہیں تومولاناکوثراشرفی سے یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں ۔طلب کرنے پرآپ کوان کانمبردے دیاجائے گا۔
مبصر۔
0 تبصرے